غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خفیہ مقاصد

پروفیسرعبدالشکورشاہ

فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی داستان سے ہم سب واقف ہیں۔صیہونی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی اور خاتمے کو اپنی سلامت سے تعبیر کرتی ہے۔ قابض، جابر، غاصب، سفاک اور ظالم اسرائیل دہائیوں سے نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔2019-20میں اسرائیل نے درجنوں فلسطینیوں کو شہید کیا۔مئی 2021 میں اسرائیل نے سینکڑوں معصوم لوگوں کو شہید کیا، جس میں 66معصوم بچے بھی شامل تھے۔غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تین درجن سے زیادہ فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔شہادتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اسرائیل نے اپنے دوسرے حملے کے دوران فلسطین اسلامک جہاد کے دوسرے اہم کمانڈر خالد منصور کو شہید کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اسرائیل ہمیشہ کی طرح اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے معصوم فلسطینیوں کو شہید کرتا آیا ہے۔ غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے پس پردہ اسرائیلی مقاصد بھی اس کی سفاکیت کی طرح سفاکانہ اور مکارانہ ہیں۔ یکم اگست 2022کو اسرائیلی فوجیوں نے جنین مہاجر کیمپ سے فلسطین اسلامک جہاد کے ایک ممبر بسام السعیدی کو گرفتار کر لیا۔ غیر مسلح بسام السعیدی کو اسرائیلی فوج نے محض اس لیے گرفتار کیا کہ اس گرفتاری کے ردعمل کے طور پر فلسطین اسلامک جہاد کوئی غلطی کرے اور اسرائیل اسے جواز بنا کر معصوم فلسطینیوں پر میزائیلوں کی بارش کر دے۔

 

چونکہ بسام السعیدی جنین مہاجر کیمپ سے باہر غیر معروف تھا، اس لیے اسرائیلی عوام کی جانب سے کوئی خاص ردعمل دیکھنے کو نہ ملا اور اسرائیل کا منصوبہ ناکام ہوتا دکھائی دینے لگا۔ غزہ کے مغربی کنارے پر کچھ فلسطینیوں نے پرامن احتجاج کیا اور معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔فلسطینی عوام یا کسی بھی فلسطینی جہادی گروپ کی جانب سے نہ تو کوئی دھمکی دی گئی اور نہ کوئی دردعمل سامنے آیا۔ بسام السعیدی فلسطینی عوام کی طرح اسرائیلی عوام،حکومتی اہلکاروں اور فوج کے لیے بھی غیر معروف تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوج کے ترجمان کو بات کرتے ہوئے اس کا صحیح نام تک یاد نہ تھا۔ جب اسرائیل نے اپنا منصوبہ ناکام ہوتے دیکھا تو اس نے فلسطین اسلامک جہاد کی جانب سے متوقعہ حملے کے خدشے کا ڈھونگ رچاتے ہوئے غزہ پر بمباری شروع کر دی۔ فلسطین اسلامک جہاد کے شمالی گروپ کے کمانڈرالجباری کو من گھڑت ممکنہ حملے کا موجب ٹھہراتے ہوئے شہید کر دیا۔ الجباری پر فضائی حملے کے دوران ایک معصوم بچی محض اس لیے شہید کر دی گئی کہ وہ الجباری کے اردگرد قیام پذیر تھی۔ اس معصوم کلی کے علاوہ درجنوں فلسطینی اس سفاکانہ حملے میں شہید اور زخمی ہوئے۔ معصوم فلسطینیوں کی شہادت پر فلسطین اسلامک جہاد نے اسرائیل پر راکٹ فائیر کیے، جن کی رینج بہت کم ہے۔ذرائع کے مطابق 600کے قریب راکٹ داغے گئے جن میں سے 97فیصدراکٹ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم نے تباہ کر دیے۔ اسرائیل کی جانب ابھی تک کسی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ یہ راکٹ اسرائیل کو نقصان پہنچانے سے زیادہ اسرائیل کو معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کا جواز مہیا کر تے ہیں۔ سفاک اسرائیل پہلے ہی غزہ پٹی کے قریب اپنی آبادی کو دور منتقل کر چکا تھا۔ غزہ کی سب سے بڑی طاقت حماس ابھی تک خاموش ہے۔ اس حملے کے لیے جارح اسرائیل کے پاس اس کی فوج یا سول آبادی کو نقصان پہنچانے جیساکوئی روایتی بہانہ بھی موجود نہیں تھااور پہل اسرائیل کی طرف سے کی گئی ہے۔ کسی دھمکی کے بغیر غزہ کی پٹی سے صیہونی آبادی کی محفوظ مقامات پر منتقلی اس بات کاثبوت ہے کہ اسرائیل نے پوری منصوبہ بندی اور اپنے طے کردہ گھناونے مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ حملے شروع کیے ہیں۔

 

دو ماہ سے اسرائیلی وزارت عظمی پر براجمان عبوری وزیر اعظم لپیڈ کے پاس سیاسی چورن بیچنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا تو اس نے اپنی قدر واہمیت بڑھانے کے لیے ان حملوں کی منصوبہ بندی کی۔اسرائیل میں نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے اسرائیلی عوام، فوج، حکومتی مشنری اور تھینک ٹینک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ حملے کیے گئے ، اسرائیلی عبوری وزیر اعظم نے اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے یہ حملے کیے۔ موجودہ عبوری وزیر اعظم کے مدمقابل سابقہ وزیر اعظم نیتن یاہو ہوں گے، جو فلسطینیوں کی نسل کشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ نیتن یاہو موجودہ عبوری وزیراعظم کو سیاسی طورپر زیر کرنے کے لیے فلسطینیوں کا ہمدرد کہتا ہے تاکہ اسرائیلی عوام کو اس کے خلاف بڑھکایا جائے۔ نیتن یاہو کی یہ بھی ایک سیاسی چال ہے کہ لپیڈ کو فلسطین پر بمباری کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ عام انتخابات میں محمود عباس کی حمایت سے مکمل طور پر محروم ہو جائے اور نیتن یاہو کی وزارت عظمی پکی ہو جائے۔ محمود عباس اس وقت پارلیمنٹ میں فلسطینی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے درپردہ ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ فلسطینیوں کو ڈرا دھمکاکر، خوفزدہ کر کے نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ اسرائیل نے یہ حربہ 2020کے انتخابات میں استعمال کیا تھا اور بہت حد تک کامیاب رہا تھا۔ 2020کے الیکشن میں صرف 45فیصدفلسطینیوں نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اسرائیل ایک بار پھر وہی حربہ آزمانا چاہتا ہے تاکہ کم سے کم فلسطینی حق رائے دہی استعمال کریں۔مشرق وسطی پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق اگر فلسطینیوں کا ٹرن آوٹ 65فیصدتک پہنچ گیا تو صورتحال بہت مختلف اور دلچسپ ہو جائے گی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نیوکلیائی پھیلاو کو روکنے کے لیے ہونے والی پیش رفت بھی اسرائیل کے لیے نقصان دہ ہے۔اگر نیوکلیائی پھیلاو کا کوئی معاہد طے پاتا ہے تو یہ اسرائیل کے لیے طبل مرگ سے کم نہیں ہو گا۔ اسرائیل فلسطین پر بمباری کر کے نیوکلیائی پھیلاو کی پیش رفت کو سبوتاثرکرناچاہتاہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا دورہ مشرق وسطی بھی اسرائیل کے لیے کوئی اچھا شگن نہیں ہے کیونکہ امریکہ درپردہ ایران کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کا خواہش مند ہے۔ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یا تو ایران سے عالمی پابندیوں کا خاتمہ ہو جائے گا یا کم از کم ان میں خاطر خواہ نرمی دیکھنے کو ملے گی۔ ایران امریکہ تنازعات کا حل یا ان کی شدت میں کمی سے ایران مضبوط اور طاقتور ہو گا جو کہ اسرائیل کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین دہائیوں سے چلتے تنازعات کو بھی ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسرائیل فلسطین میں مختلف جہادی گروہوں پر ایرانی سرپرستی کا الزام لگا کرمعصوم فلسطینیوں کا قتل عام شروع کردے گا اورزیر غور امن اورمفاہمت کی کاوشوں کو تہس نہس کر دے گا۔ اسرائیل فلسطین اسلامک جہاد کے بہانے معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے تاکہ حماس بھی فلسطینیوں کے قتل عام پر زیادہ دیر تک خاموش نہ رہ سکے اور اسرائیل کے ساتھ محاذآرائی کرنے کی غلطی کرے۔ چونکہ اسرائیل اور حماس کے مابین کچھ معاہدے ہیں جن کا کچھ فائدہ حماس کو ہورہا ہے جو اسرائیل کو کھٹکتاہے اور اسرائیل یہ چاہتا ہے حماس کوئی غلطی کرے اور اسرائیل اسے بہانہ بنا کر ان معاہدات سے بریت کا اعلان کر دے۔ غزہ پر ہونے والی حالیہ بمباری کے درپردہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے اسرائیل چاہتا ہے وہ فلسطین میں برسرپیکار جہادی گروپوں کو آپس میں لڑائے اور پھر ایک ایک کر کے ان کا شکار کرے۔ اگر اسرائیل غزہ پر حملے مسلسل جاری رکھتا ہے جیسا کہ اسرائیل کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے تو شائد حماس زیادہ دیر تک خاموش نہ رہے۔ اگر حماس نے پھر بھی خاموشی اختیار کیے رکھی تو فلسطین اسلامک جہاد جو کہ اس وقت اسرائیل کے نشانے پر ہے ،حماس کے بارے بدظن ہو سکتی ہے جس کا سارا فائدہ اسرائیل کو ہو گا۔ذرائع کے مطابق حملے روکنے کے لیے مصر کی جانب جنگ بندی کی کوشش کی گئی جو کسی حد تک کامیاب بھی رہی ہے لیکن اب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی معاہد ہ طے پاتا ہے یا ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔
(رابطہ۔3214756436)
[email protected]