غزلیات

ہیں فضلِ خدا تیری مخمور آنکھیں
کہاں سب کو ملتی ہیں پُرنور آنکھیں
 
فقط اپنی پلکوں کی  جنبش کے دم پر 
جو کہتا ہو کہتی ہیں مشکور آنکھیں
 
جو ٹکرائے گا اِن سے گُل کے گُماں میں
تو کردیں گی پتھر کو بھی چُور آنکھیں
 
خُدا تک رسائی کا ہیں اِک وسیلہ
ہوئے تُم جو موسیٰ تو کوہِ طُور آنکھیں
 
سمجھنے لگیں لوگ اِن کو دوکاں ہی
خدا را نہ کر اتنی مشہور آنکھیں
 
ترجماں ہیں پنچھیؔ یہ رنج و لم کی
نظر آرہی ہیں جو رنجور آنکھیں
 
سردار پنچھیؔ
ملیر کوٹلہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668
 
کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے
پایا ہوا سب کھو سکتا ہے
 
اس کے ساتھ ہوا جو سب کچھ
میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے
 
وہ اپنی پلکوں کے موتی
میری آنکھ میں بو سکتا ہے
 
جو نیندوں کا سوداگر ہو
وہ کب چین سے سو سکتا ہے
 
ہسنا رونا مرنا جینا
پل میں کیا کیا ہو سکتا ہے
 
عارفؔ اُس کو کیا دیکھو گے
وہ ہر رنگ میں ہو سکتا ہے
 
عرفان عارفؔ
صدر شعبہ اردو
ایس پی ایم آر کالج آف کامرس جموں
موبائل نمبر؛9682698032
 
مرا دل عشق میں یوں سرپھرا ہے
فقط کرتا وفا پر اکتفا ہے
یہی دستور دنیا میں روا ہے 
نہ میں ہوں گا، نہ ہی تیری بقاء ہے
سنائے منزلوں کے خواب کیونکر
بھٹکتا جب کہ خود بھی رہنما ہے
یہ مانا لوگ وعدوں پر جیے ہیں
قسم ان کی بڑی بے اعتنا ہے
تجھے پانے کا ہم نے عہد باندھا
ابھی سے خوف میں کیوں مبتلا ہے 
جسے ہستی کہے ہو شان سے تم
تماشا ہے، فقط اک بلبلا ہے
نہیں ممکن کبھی سلجھے ترا دل
جہاں داری کا شاید ماجرا ہے
ہر اک شے یاں فقط دھوکہ نظر کا
نہ مر اس پر، یہ دنیا بے وفا ہے
 
ڈاکٹر مظفّر منظور
اسلام آباد کشمیر
موبائل نمبر؛9469839393
 
 
رو بہ رو بیٹھوں میں اپنے یار کے
شوق میں جلنے لگا دلدار کے
 
ہم زباں درماں پڑے دیدار کے
ہم بہت مشتاق ہیں گفتار کے
 
عالمِ وحشت کا طالب ہو گیا
اپنے عرفانِ نَفس کو مار کے
 
سینۂ دم ساز کا ہے زور یہ
جو نِکمے ہو گئے کردار کے
 
منہ چھپائے در بہ در پھرتا رہوں
آتشِ قلزم میں خود کو مار کے
 
کیا بتائیں جو چلیں ہیں چھوڑ کر
تھے متاعِ جان یاورؔ ڈار کے
 
یاورؔ احمد ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ کپوارہ کشمیر
موبائل نمبر؛ 6005929160
 
 
برہنہ جب وہ تیرے ظلم کا تن دیکھ لیا
ایک لمحہ نہ گیا دار و رسن دیکھ لیا
 
لوگ لرزاں ہیں ترے سحر کی وحشت سے بہت
ہم نے موسیٰ کی طرح سحر کا فن دیکھ لیا
 
اے خدا  سچ ہے تری ذات لا مکاں ہے مگر
فرش پر ہم نے خداؤں کا وطن دیکھ لیا
 
خوب کرتے تھے  عدو رشک آشیاں پہ میرے
آج یاروں نے آشیاں کا صحن دیکھ لیا
 
درد سے اُن کی بھری بزم میں ہم چیخ اُٹھے
وہ یہ بولے تری آہوں کا لحن دیکھ لیا
 
عمر بھر رُخ پہ میرے ایک نظر تک نہ گئی
آج چہرے سے  سرکتے ہی کفن دیکھ لیا
 
ہونٹ سی کر جو خِزاں میں نہ رہے مضطرؔ کے
کیسے جلتا ہے بہاروں میں چمن دیکھ لیا
 
اعجاز الحق مضطرؔ
کشتواڑ،موبائل نمبر؛ 9419121571
 
 
کس نظر سے بُلا گیا کوئی
اور پھر دل چُرا گیا کوئی
 
جیسے ناگن ہے چہرے پہ رقصاں
زلف ایسے گِرا گیا کوئی
 
کچھ بھی اپنے مقام پر ہی نہیں
کیسی دنیا بنا گیا کوئی
 
ہم تو اِک ریگزار جیسے تھے
زندگی کو سجا گیا کوئی
 
محو حیرت ہے آیئنہ صورتؔ
وقت ایسے بُھلاگیا کوئی
 
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛ 9622304549
 
 
کم سن لڑکی کس نے یہاں یہ جال بچھایا ہے
خواب حسین دکھلاکے تجھے کانٹوں میں پھنسایا ہے
ہلکے سے بھی راہ پر جب یہ تیرے قدم بھٹکے
ہاتھ پکڑ کر تیرا سب نے فائدہ اُٹھایا ہے
تیرا حق جتلاکے تجھے بازار میں لایا
اور پھر اپنی خاطر تجھے دوکاں پہ سجایا ہے
تُو مظلوم ہے تُو بے بس ہے عورت ترا نام
گھوم گھام کے ان ہی باتوں میں الجھایا ہے
تو اب اپنے حیا کے دامن سے ہی نکل کے آ
زہریلی باتوں سے کیسا زہر پلایاہے
جس نے محبت کے جالے میں تجھ کو پھنسایا 
وہ تیری آنکھوں کی بینائی بھی لُٹایا ہے
یہ بلبل کی شکل لئے صیاد چمن میں ہے
دل کے اندر کیا کچھ ہے وہ سارا چُھپایا ہے
اب نہ بھروسہ کر تو کسی بھی حال کسی پریاں
غور تُوکر اُس پر بھی راشدؔ نے جو سنایا ہے
 
راشد اشرف
کرالہ پورہ، چاڈورہ