غزلیات

 
آئینے میں اُتر گئے ہوتے
ٹوٹ کے ہم بکھر گئے ہوتے
زندگی کے بھی کچھ تقاضے ہیں
ورنہ جاں سے گزر گئے  ہوتے
غم کی ہوتی مٹھاس ہے اپنی
کوئی چارہ تو کر گئے ہوتے
وقت سے خاک ڈالنا چُھوٹا
زخم دو چار بھر گئے ہوتے
آپ آتیں تو قوس قزح کے
رنگ ساتوں اُتر گئے ہوتے
عشق زادہ ہوا نہ تخت نشین 
بخت بگڑے سنور گئے ہوتے
اِس خرابے  میں  آگئے شیدؔا
ہاں، نہیں تو کدھر گئے ہوتے
 
علی شیدا ؔ
 نجدون نیپورہ اننت ناگ
موبائل  نمبر؛9419045087
 
 
 
غزلیات
اپنے بچوں کو ہم  بے کار نہ ہونے دیں گے
یہ تو ہیں پھول انہیں خار نہ ہونے دیں گے
 
رکھ کے پردوں میں بچائیں گے گھروں کی عزت
بیٹیاں ،ز ینتِ بازار نہ ہونے دیں گے
 
ختم کر دیں گے جہیزوں کے یہ فرسودہ رواج
اپنی بہنوں پہ کوئی وار نہ ہونے دیں گے
 
پھوٹ پڑ جائے دلوں میں یہ تو ہے دور کی بات
ہم تو آنگن میں بھی دیوار  نہ ہونے دیں گے
 
ہم لُٹا دیں گے بڑے شوق سے یہ جان، مگر
گھر یہ اللہ کے مسمار نہ ہونے دیں گے
 
ہم تو ساحل پہ ڈبو دیں گے جو طوفاں سے بچی
ظلم کی ناؤ کبھی پار نہ ہونے دیں گے
 
ان کی ہر بات کا رکھیں گے ہم خیال رفیقؔ
بوڑھے ماں باپ کو لاچار نہ ہونے دیں گے
 
رفیقؔ عثمانی 
 آکولہ ( مہاراشٹر )
 
 
 
اب دل سے مرے خوئے محبت نہیں جاتی
سنتا ہوں کہ آسانی سے یہ لت نہیں جاتی
ہم جانتے ہیں اِس میں ہے نقصان سراسر
اب کیا کریں ہم سے یہ مروت نہیں جاتی
گُفتار میں نرمی ہو تو بنتے ہیں کئی کام
لہجہ ہو اگر نرم تو عزت نہیں جاتی
تعلیم بھی آئی ہے ترقی بھی ہے لیکن 
کیوں تیرے قبیلے سے جہالت نہیں جاتی
اللہ کاڈر بھی ہے قیامت کا بھی ہے خوف
اور دِل سےگناہوں کی محبت نہیں جاتی
تدبیر بھی لازم ہے دعائیں بھی ضروری
فریاد ہی کرنے سے مصیبت نہیں جاتی
ہم تم جِسے آپس کی محبت ہیں سمجھتے
بھولے سے بھی اُس سمت سیاست نہیں جاتی
تم بھی گئے اوجھل ہوئی تصویر تمہاری
آنکھوں میں جو پِھرتی ہے وہ صورت نہیں جاتی
عاقبؔ کو وراثت میں ملا گنجِ قناعت
کتنا ہی کریں خرچ یہ دولت نہیں جاتی
 
 حسنین عاقبؔ ( پوسد)
پُوسد شہرضلع ایوت محل مہاراشٹر
موبائل نمبر؛ 9423541874
 
 
شہرِ غم کی رات ہے مشکل بہت
اے ستارو آج تنگ ہے دل بہت
 
رن کو نکلے تھے سبھی یک جان سے
کچھ مگر لوٹے کہ تھے بزدل بہت
 
غیر میں کس کو کہوں سب دوست ہیں
دشمنی پر کچھ مگر مائِل  بہت
 
اب کروں کس پریقین اِس نائو میں
ڈوبتے دیکھے یہاں ساحل بہت
 
دیکھتی جو آنکھ وہ تھی نیند میں
واقعی کیا لوگ ہیں گھائل بہت
 
مشتاق مہدی 
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053
 
 
میرے آنگن سے گُزرتی ہے نسیمِ جاں فزا
دیکھ کر مجھ کو نِکھرتی ہے نسیمِ جاں فزا
 
جب بھی ہوتا ہے مِرے پہلو میں وہ میرا عزیز
اس گھڑی بے حد ہی ڈرتی ہے نسیمِ جاں فزا
 
پردۂ خاکی میں کوئی تو ہے پنہاں دوستو
اس لئے تو مجھ پہ مرتی ہے نسیمِ جاں فزا
 
روز آتی ہے سحر کے وقت میرے حجرے میں
گِرد میرے رقص کرتی ہے نسیمِ جاں فزا
 
کوئی شے رہتی نہیں خالی لطافت سے یہاں
شہر میں سارے بکھرتی ہے نسیمِ جاں فزا
 
نام رُکنے کا نہیں لیتے ہیں یہ آنسو مِرے
جس گھڑی مجھ سے بچھڑتی ہے نسیمِ جاں فزا
 
ادنیٰ بسمل، کچھ نہیں ہے وہ، ہاں اتنا ہے مگر
دیکھ کر اس کو ٹھہرتی ہے نسیمِ جاں فزا
 
سید مرتضیٰ بسمل
پیر محلہ شانگس اسلام آباد،اننت ناگ
موبائل نمبر؛6005901367
 
 
کِیَا کرتے ہیں ہم عبادت ابھی بھی
کہ دل میں ہے زندہ محبّت ابھی بھی
تری بد مزاجی میں یوں کون تم سے
کرے گفتگو کی جسارت ابھی  بھی
جسے باغ میں گُل سبھی کِھل اُٹھیں گے
طلب کرتے ہیں وہ قیادت ابھی بھی
الگ بات ہے یہ کہ غربت کے دن ہیں
دلوں میں ہے زندہ سخاوت ابھی بھی
یہ کس نے کہا تھا بدل سا گیا تو
برابر ہے تجھ میں خیانت ابھی بھی
گنہگار تھا میں، خطا کار بھی تھا
مگر کرتے ہیں سب ملامت ابھی بھی
سُنا ہے وہ کرتا ہے حِلّت کی باتیں
جو لیتا ہے لوگوں سے رشوت ابھی بھی
سزا جس خطا کی میں کاٹا ہوں برسوں
طلب کرتے ہو کیوں  صداقت ابھی بھی
زمانے کے خنجر یوں کھا کے بھی ارشدؔ
میرا دل ہے بالکل سلامت ابھی بھی
 
ارشد احمد ارشدؔ
پہنو شوپیان
موبائل نمبر؛6005816326
 
 
میں  اپنے خواب کی تعبیر کیا بولوں
چمک اُٹھے گی پھر تقدیر کیا بولوں
میں  اپنی بھی حفاظت کر نہیں  پایا
پڑی پائوں میں اک زنجیر کیا بولوں
لہو سستے میں اپناگر رہا ہے یاں
دعائوں میں نہیں تاثیر کیا  بولوں
یہ طالع بھی تو ساکت ہی ہے اپنا بھی
میں کیا سوچوں مگر تدبیر کیا بولوں
میں اتنا مضمحل تو ہو گیا ہوں اب 
کہ خستہ د کھتی ہے تصویر کیا بولوں
مرے کرتوت کو تو دیکھ کر  فوراً
اُٹھائے گا وہ پھر شمشیر کیا بولوں
مری چھاتی پہ اس نے کھینچا ہے جو خط
میں تو حیران ہوں تقصیر کیا بولوں
مجھے کچھ بھی نظر میں اب نہیں آتا
میں تو آزادؔ ہوں دلگیر کیا بولوں
 
ایف آزاد دلنوی
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر؛6005196878
 
 
شہرت کا شوق یوں مجھے شرمسار کر گیا
غیرت کو میرے جسم سے اُتار کر گیا
کیونکر ہوا میں خود نما اس کے خمار میں
اپنی خودی کو کیسے میں مسمار کرگیا
روبرو میرے کھڑی تھی راہِ مستقیم
میں اپنے راستے کو کیوں خم دار کر گیا
لکھ نہیں سکا کبھی میں غزلِ مقصود
بحر و عروض کی نذراشعار کر گیا
آج بھی خوشبوئے جاناں چھوگئی مجھے
مایوس آج پھر مجھے گلزار کر گیا
وہ میرے نام لکھ سکا نہ خط کوئی خلشؔ
میں نام اس کے اپنے سب ادوارکرگیا
 
خلشؔ 
لارم اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛7889506582
 
 
کبھی ایک پل کو گمان کر
مجھے کیا ملا تجھے جان کر
یہ بدن مٹے گا کچھ اس طرح
نہ ملےگا خاک کو چھان کر
جو ہے دل میں کہہ سکوں خدا
مرے دل کو میری زبان کر
ہو تجھے اگر کسی سے گلہ
نہ کسی سے کہہ نہ بیان کر
کہ کبھی تو بدلے گا آدمی 
میں جہاں میں ہوں یہی مان کر
 
سحرش ثمرؔ
اے، ایم، یو علی گڑھ