غزلیات

نیزے پہ لہو کی کوئی قیمت نہ ملے گی 
مقتول کو مرکے بھی رفاقت نہ ملے گی 
شکوہ نہ ملے کوئی شکایت نہ ملے گی 
شعروں میں کسی کے یہ بلاغت نہ ملے گی 
کلیوں کو تبسم کی اجازت نہ ملے گی 
تتلی کی نگاہوں میں شرارت نہ ملے گی 
الله  رے ہمیں آپ کی قربت نہ ملے گی 
محشر میں بھی جلوئوں کی قیامت نہ ملے گی 
دوچار قدم چل کے ضمانت نہ ملے گی 
سینوں میں محبت کی امانت نہ ملے گی
کشمیر کے رنگوں میں تبسم ہے صبا کا 
پھولوں کی کہیں تم کو نظامت نہ ملے گی 
منصف طرفدار تو انصاف کا ہوگا 
عادل ؔکی عدالت میں سیاست نہ ملے گی 
 
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی سرینگر
موبائل نمبر؛ 7780806455
 
 
جہاں میں اب وفاداری نہیں ہے
وہ پہلی سی  ملنساری نہیں ہے
 
سمجھتا ہے مجھے اپنا وہ دشمن
ابھی اس میں سمجھداری نہیں ہے
 
مرا یہ چاہنا اور تجھ پہ مرنا
حقیقت ہے ، اداکاری نہیں ہے
 
مہکتا ہے تری خوشبو سے  ورنہ
مرے آنگن میں  پھلواری نہیں ہے
 
کہاں رکھوں گا تیری چٹھیوں کو
مرے گھر میں تو الماری نہیں ہے
 
تمہارے ذکر سے نکھری ہے ورنہ
غزل اتنى مری پیاری نہیں ہے
 
بہت سی خوبیاں ہیں اسمیں لیکن
ذرا سی بس وفاداری نہیں ہے
 
رفیق عثمانی ؔ
 آکولہ، مہاراشٹرا
 
 
دشت بھی، تاریکیاں بھی، مل گئیں تنہائیاں
واسطے ان کے کیں ہم نے ترک بزم آرائیاں
ہم سناتے ہی رہے رودادِ دل، دل کھول کر
بے ارادہ وہ سنا، لیتا رہا انگڑائیاں
ہم فلک کے زیر سایہ رات دن تڑپیں یہاں
وہ محل کے بعد دیکھیں واں چمن آرائیاں
ریت قائم ہے ازل سے جائے فانی میں یہی
ایک جانب سوگ ہے تو دوسری شہنائیاں
ہوں گے فارغ وہ تبھی غوطہ زنی کے کام سے
جب اُگل دیں گی سبھی اسرار کو گہرائیاں
کب جنوں کی کیفیت گزرے گراں عاشق پہ یاں
گو سدا ہوں عشق میں دیکھیں فقط رسوائیاں
عمر گزری پھڑپھڑاتے، دیکھ لیتے اک نظر
موت پر بھی ہیں تعاقب میں وہی پرچھائیاں
حشر تک قائم رہیں گی، فطرتیں بدلیں ہیں کب
حسن برف آمیز لیکن عشق میں رعنائیاں
موت پر بھی اکتفا اب ہو نہیں سکتا مری
یوں بڑھاتی ہیں تذبذب ان کی بے پروائیاں 
 
ڈاکٹر مظفرؔ منظور
اسلام آباد کشمیر
موبائل نمبر؛9469839393
 
اُس نے بنالیا ہے اگر یار دوسرا
ہم نے بھی ساتھ رکھ لیا دلدار دوسرا
کہنے کو تم نے چُن تو لیا یار دوسرا
ہم سا ملے گا کب کوئی غم خوار  دوسرا
خنجر سبھی کی پیٹھ پہ ر کھتا ہے آشنا
کرتا نہیں کبھی بھی کوئی وار دوسرا
ہم تھے کہ دل کی بات نہ لائے زبان پر
چاہت کا  اُس سے کر گیا  اظہار دوسرا
گر تُو خرید لیتا تو کچھ او ر بات تھی
ویسے تو ہے مِرا بھی خریدار دوسرا
’غالب‘ خموش لفظوں کو آواز دے گیا
ایسا نہ ہو سکا کوئی فنکار دوسرا
 
رئیس صِدّیقی 
سابق آئی بی ایس افسرآکاشوانی و دوردرشن 
موبائل نمبر؛9810141528
 
 
اب ہر عہد سے مُکر جانا چاہتا ہوں
رند ہوں میں سدھر جانا چاہتا ہوں
 
تُو اپنے دل اور خواہشوں کو بھول کر 
مجھ سے پوچھ کدھر جانا چاہتا ہوں
 
سانس کی اس ہا اور ہو میں اب تلک
پابند ہوں میں بکھر جانا چاہتا ہوں
 
میں رات دن کا چھوڑ کر یہ ماجرہ
 قاف سے بھی اُدھر جانا چاہتا ہوں
 
خواہشوں کے رعب سے دل ہار کر
تیرے درپن میں نکھر جانا چاہتا ہوں
 
شہزادہ فیصل
موبائل نمبر؛8492838989
 
 
غزلیات
انصاف کے دیار میں یوں بارہا ہوا 
قاتل رہا اسیر کوئی بے خطا ہوا
منصور ہوں نہیں کوئی سقراط میں مگر 
حق کے لیے میں دارپر ہنس کے کھڑا ہوا
دل میں کوئی حریف کی وحشت نہیں مگر
میں دوستی کے پھن سے ہوں اندر ڈسا ہوا
قسمت مری اسیر ہے جھونکوں کے ہاتھ میں 
میں برگِ زرد شاخ سےکب کا کٹا ہوا
پوچھا کسی سے حال جو رستے میں اک دفعہ
وہ شخص مجھ سے بڑھ کے تھا برسوں لُٹا ہوا 
دامن پہ عاجزی میں جب آنسوں گرا کوئی 
مجھکو مری بساط سے اونچا عطا ہوا
عارفؔ وجود کاٹتی ہے اس کی آہ مجھے
جس ماں کا لال راستے میں لاپتہ ہوا
 
جاوید عارفؔ
پہانو شوپیان،کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298
 
 
ہر پل اس کا خیال آتا ہے 
جینا اس بِن محال آتا ہے
چاند کو دیکھوں جب بھی میں 
سامنے ان کا جمال آتا ہے
نہ اِترا کارِ سامانِ عیش پر 
ہر کمال پہ زوال آتا ہے
ہے خواہش ترکِ تعلق کی
خشک ہونٹوں پہ سوال آتا ہے
دل تھام کے بیٹھا ہوں میں 
ایسی کَج رو چال آتا ہے
یہ کمال کچھ کم ہے ان کا 
ہم فقیروں پہ جلال آتا ہے 
صبح گاہی نہ ہوئی کیونکر ؟
جب تلک نہ بلالؓ آتا ہے
میں نے سمجھا تھا جسے اپنا مشتاقؔ
سدا جانب میری اُلٹی چال آتا ہے
 
خوشنویس میر مشتاق
ایسو ، اننت ناگ 
 
 
زمین دیکھی، زماں دیکھا ہے اور نا کوئی در دیکھا
جہاں دل کو یقین آیا وہیں سجدے میں سر دیکھا
 
نہیں میں جانتا ہی تھا سمندر کس کو کہتے ہیں
سُنا جب نقط دانوں کو تو بوندوں میں، بحردیکھا 
 
گراتا ہے چٹانوں کو کبھی یہ شیشۂ دل بھی
محبت کی دعائوں میں اثر کچھ اس قدر دیکھا
 
جو ہو عہدِ وفا تو پھر گلے شکوے کہاں ہونگے
جہاں ہو مصلحت زیادہ تو رشتہ مختصر دیکھا
 
فقط باتیں سہارا بن نہیں سکتیں یہاں ہرگز
جو ٹکراتا ہے باطل سے اُسی میں ہے اثر دیکھا
 
سُنا جب شورِ قاتل تب ہی جاگا نیند سے سعیّدؔ
کُھلی جب آنکھ اپنوں کو ہی دیکھا اور نہ گھر دیکھا
 
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906355293
 
 
پہلا سال آسمان وہ، نہ اب زمین ہے
دن سارا پریشان ہے اور شب حزین ہے
 
اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے سب کچھ بکھر گیا
چہرے سے لگے ہے تو وہ اک مہ جبین ہے
 
اُڑتی ہے دھول ہر طرف اس میرے سفر میں
مہکے جو گُل اِس حال میں وہ بہترین ہے
 
روٹھے ہیں مجھ سے میرے سبھی اپنے پرائے
منزل ہے میری طے شدہ، رستہ امین ہے
 
بچھڑے ہیں زندگی کی لطافت سے سب یہاں
صورتؔ تُو مزے لے رہا ہے، تُو زہین ہے
 
صورتؔ سنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9419364549
 
 
غیروں کی بات نہیں اپنے چھوڑ کر گئے ہیں 
غم اس بات کا ہے دل کو توڑ کر گئے ہیں 
  کسی کے بِن کسی کی یاد کے بِن رہ تو سکے 
کیا کرے درد سے رشتہ جوڑ کر گئے ہیں   
 میں انہیں دیکھو ںمگر پہچانوں کیسے اُن کو 
مسئلہ یہ ہے کہ اوڑھنی اوڑھ کر گئے ہیں 
رازداروں کی رازداری پر بھروسہ تھا 
بچھڑتے وقت ہر راز پھوڑ کرگئے ہیں 
تماشا کیا انہوں نے لیکن گلہ نہ ہوا 
بھروسہ کیسے کروںبھروسہ توڑ کر گئے ہیں 
آخری قدم تھے منزل مل ہی جاتی معراج ؔ
گئے تو ہے مگر منہ موڑ کر گئے ہیں
 
معراج نذیر ڈار 
ریشی پورہ شوپیان