غزلیات

ایک مُٹھی شام دے دو
پیار کے دو گام دے دو
گلاب گالوں کی تمتماہٹ
نشیلی آنکھوں کے جام دے دو
مرے اندر آئیو تم
مجھ کو اپنا نام دے دو
ہونٹھ چاہے بند کرلو
آنکھ سے پیغام دے دو
تم سدا میرے رہو گے
یہ خیالِ خام دے دو
چاند ہو تو دیکھنے دو
چاہے پھر الزام دے دو
گرمحبت مل سکے تو 
زندگی بے دام دے دو
زلف کے سائے کے نیچے
دو گھڑی آرام دے دو
 
خوش دیو مینی
پونچھ،جموں وکشمیر
 موبائل نمبر؛8493881999
 
زخم سوغات پر اُتر آئے
اشک برسات پر اُتر آئے
صرف دیکھا تھا اک نظر یوں ہی
وہ ملاقات پر اُتر آئے
مجھکو دشمن کی کیا ضرورت ہے
"دوست سب گھات پر اتر آئے"
وہ مقابل تھا سامنے اپنے
اس لئے مات پر اُتر آئے
چوٹ گہری نہیں لگی پھر بھی
درد نغمات پر اُتر آئے
صرف شیشہ ہی تو دکھایا تھا
تم مری ذات پر اُتر آئے
پیار سے اک نظر ہی دیکھا تھا
اور وہ جذبات پر اُتر آئے
 
جبیں نازاں
لکشمی نگر، نئی دہلی 
 
غزل
رنج میں لذت نہاں ہے کب ہمیں ادراک تھا
عشق سے پہلے مزہ کیا زندگی میں خاک تھا
ہم کو دیوانہ تصور لوگ کر پا تے کہاں 
دشت میں بھٹکے نہیں ہم، نا گریباں چاک تھا
دن کا کیا تھا، جیسے تیسے کر لیا ہم نے بسر
رات یادوں کا سفر پُر درد تھا ، نمناک تھا
ظاہری صورت کے چکر میں اُلجھ بیٹھا تھا میں
 اس لئے دیکھا نہیں دل جو پسِ پوشاک تھا 
کوچہء جاناں ہمارے بعد یوں ویراں ہوا
اُڑ رہی تھی خاک، یادوں کا پڑا خاشاک تھا
عشق کے دریا میں اُترا اور کنارے تک گیا
عاشقِ پر عزم تھا وہ یا غضب تیراک تھا 
میں تعین کر نہیں پایا ہوں عارض ؔآج تک
عیب جوئی کرنے والا عیب سے کیا پاک تھا
 
عارضؔ ارشاد
 نوہٹہ، سرینگر
موبائل نمبر؛700603386

 

 
غزلیات
اُس سے مِل پاتی اگر میری نظر
کچھ دکھا دیتی اثر میری نظر میں
ہر گھڑی ڈھاتا ہے جو روسِتم
چُپ سی رہتی ہے مگر میری نظر
جارہی ہے دُنیا ساری کِس طرف
رکھتی ہےاِتنی خبر میری نظر
کر گئی دُنیا نظر اندار اِسے
کاش ہوتی با اثر میری نظر
جب سے دیکھیں عصمتیں لُٹتی ہوئی
ہوگئی خاموش تر میری نظر
وہ زبان بھی کہہ نہ پائی سے ہتاشؔ
کہہ گئی جو سوچ کر میری نظر
کیا بتائوں زندگی پیارے ہتاشؔ
کیسے کرتی ہے بسر میری نظر
 
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
 
 
پوچھتے ہو کہ کیا ہو گئے
شہر کا ماجرا ہو گئے
ہم کو لے آئے منظر پہ تم
اور خود لا پتہ ہو گئے
شوق سے ہم چڑھے دار پر
صبر کی انتہا ہو گئے
ہم جو نکلے سفر پر کبھی 
اَمن کا راستہ ہو گئے 
جب بھی ہم نے نظر پھیر لی
عدل کا فیصلہ ہو گئے
کچھ سبب ہے کہ یوں ہی نہیں
قتل ہم بے وجہ ہو گئے
دیکھ میرے قلم کا اَثر 
لفظ ِرب کی رَضا ہو گئے
کارواں کو ہے خدشہ بہت
اب کے تم رہنما ہو گئے
یار مضطرؔ ہیں کیوں دِل شکن
جب سے تُم دِل رُبا ہو گئے 
 
 اعجاز الحق مضطرؔ
کشتواڑ،
موبائل نمبر؛9419121571
 
 
ظاہر ہوا جو زخم تو مہربان ہوگیا
حالت وہ میری دیکھ کر لقمان ہوگیا
برسوں کے بعد پایا جو  مجھکو منتظر
نادم نہیں ہوا مگر حیران ہوگیا
جو ہو نہیں سکا محبت کا قدرداں
وہ شخص میری غزل کا عنوان ہوگیا
آنا تیرا دشوار تھامانا ہے یہ لیکن
موت کا آنا بھی کب آسان ہوگیا
یہ کون میرے شہر کا حکمراں ہوگیا
نیلام میرے گھر کا سب سامان ہوگیا
تیرے ہر الزام  کا یہ مان رکھا ہے
ثابت میری خامشی سے ہر بہتان ہوگیا
میں نےسنا کہ آرہے ہیں پرسش کو میری
اب موت کا شاید کوئی امکان ہوگیا
ہوتا نہیں میں خود سے آزاد کیوں خلشؔ
میں خود ہی اپنے آپ کا زندان ہوگیا
 
خلشؔ
لارم اسلام آباد، کشمیر
موبائل نمبر؛7889506582
 
 
حادثے کیسے کیسے زندگی میں گذر جاتے ہیں
خواب برسوں کے پل بھر میں بکھر جاتے ہیں
 
کہیں پہ دیکھتی رہتی ہیں رستے مائیں
اور کہیں بہنوں سے بھائی بچھڑ جاتے ہیں
 
کسی کی ہوجاتی ہے مانگ ہی سُونی لوگو
تیر جدائی کے سینے میں اُتر جاتے ہیں
 
ہوش آتا ہے نہ سنبھل سکتا ہے پھر کوئی
زہرِ غم پیار سے جب لوگ پلا کر جاتے ہیں
 
دشت و صحرا میں تکلیف اُٹھانی ہوگی
اپنی مرضی سے کبھی لوگ سحرؔ جاتے ہیں
 
ثمینہ ؔسحر مرزا
ڈھون، راجوری
 
 
کچھ عشق والےحالات کرلو
مجھ سے یوں ہی بات کر لو
 
تھک چکاہوںبہت دنوںسے
کوئی دن کو رات کر لو
 
نامور ہونگا تیرے شہر میں
بس بدنام میری ذات کرلو
 
جاناں تیری آنکھوںسےسہی
عیاںوفاکےجذبات کرلو
 
جُھک جُھک کےابتداءسے
اپنی انتہاؔ تک کائنات کرلو
 
فاحداحمدانتہاؔؔ
واگہامہ بجبہارہ اننت ناگ