غزلیات

 

مسلسل غم کی ہے برسات مجھ پر
گراں ہیں آج کل حالات مجھ پر
تصور دن کا لیکر جی رہا تھا
مسلط کس نے کر دی رات مجھ پر
رہائی کے لئے تدبیر کیا ہے
پڑی ہے عشق کی آفات مجھ پر
بظاہر روشنی ہی روشنی ہے
اسی جھرمٹ سے ہے ظلمات مجھ پر
ابھی کا آدمی ہے بے مروت
مشینی دور کی سوغات مجھ پر
سناوں کس کو اپنا درد یکسر
معمہ ہے یہ میری ذات مجھ پر
عنایت ہیں تجھے کیا شعر گوہر ؔ
سحر آمیز یہ نغمات مجھ پر

گوہر بانہالی
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9906171211

ریزہ ریزہ بکھر گیا ہوں میں
زندگی تجھ سے ڈر گیا ہوں میں

بے اثر ہو گئيں دعائیں کیوں ؟
کیا کوئی پاپ کر گیا ہوں میں

خون دے کر بچائی جاں اس نے
اس کے احساں سے مر گیا ہوں میں

میں نے رکھا لحاظِ عہدِ وفا
لوگ کہتے ہیں ڈر گیا ہوں میں

کوئی چھو کر ذرا بتائے مجھے
زندہ ہوں یا کہ مر گیا ہوں میں

کیسے پہچانتا کوئی مجھ کو
بعد مدت کے گھر گیا ہوں میں

جب سے حق بولنے لگا ہوں رفیقؔ
سنگ برسے جدھر گیا ہوں میں

رفیقؔ عثمانی
آکولہ،مہاراشٹرا
ریٹائرڈ سپرانٹنڈٹ BSNL

تھی جو دولت پاس اپنے اب تلک اخلاق کی
ہے نہیں کچھ بھی خبر وہ اب کہاں رخصت ہوئی
سامنے سےجب گزرتا ہے کوئی نادار تو
پھیر لیتے ہیں اسے کیوں دیکھ کر گردن سبھی
چاہے کتنی ہی بھلائی ساتھ ہم اس کےکریں
پر نہیں خصلت بدلتی دیکھ لی کم ظرف کی
غیر تو ہیں غیر اپنے بھی پرائے جب ہوئے
کیا بتائیں کیسےہم نے پھر گزاری زندگی
یہ تو ممکن ہی نہیں ہم پاسکیں رب کی رضا
جب تلک دل سے نہ کر لیں اس خدا کی بندگی
مہر ومہ تو دے رہے ہیں درس ہم کو بس یہی
ہر کسی تاریک گوشے میں جگا دو روشنی
ایک بلبل تھا شجر پر بیٹھا کچھ غمگین سا
باغ میں پھولوں کی شاید دیکھتا تھا بد دلی
یاد آتا ہےکبھی جب مجھ کو اپنا بچپنا
دل میں اُٹھتی ہے کسک سی مان لو پھر پیار کی
دور دورہ نفرتوں کا آج کل شادابؔ ہے
جو یہ پھیلائی زیادہ اس کی عزّت ہے بڑی

غلام رسول شاداب
مڑواہ (کشتواڑ)
موبائل نمبر؛ 9103196850

اپنی ہر اک خطا کی میں خود گواہی دے گیا
ترکِ تعلق کی میں ساری صفائی دے گیا
اس کے پہلو میں جو ہم نے بِتائے چار دن
بعد میں پھر عمر بھر کی وہ جُدائی دے گیا
عشق کے مذہب میں وہ میرا معبود تھا
مجھ کو بدلے میں وہ نغمۂ سرائی دے گیا
بس گیا ہے اس طرح وہ میرے جسم و جان میں
اپنے دل کی میں اس سے ساری خُدائی دے گیا
عشق جب ہوگیا اپنی اَسیری سے ہمیں
ہائے وہ ظالم مجھے تب رِہائی دے گیا
چشم تر آنکھوں سے وہ رخصت کرکے مجھے
لُوٹ آنے کی پھر مجھ کو دُہائی دے گیا
میرا آئینہ بھی تیرا ہی طرف دار ہے
میرے بدلے عکس تیرا دِکھائی دے گیا
تھا کبھی عابد ؔتو جس کیلئے اِک اجنبی
آج تم کو اپنے دل تک وہ رسائی دے گیا

عابد حسین راتھر
موبائل نمبر؛7006569430

ہم نے دیکھا ہے دلوں کا بتِ سنگیں ہونا
پیر و مرشد کا خلش سرکش و بے دیں ہونا

میں یہاں صاحبِ ثروت ہوں اگر تو کیا ہوں
خوش نصیبی ہے ترے شہر کا مسکیں ہونا

میں تو ہر شام ترے نام پہ رویا ظالم
تجھ پہ واجب ہے مری موت پہ غمگیں ہونا

تم نے دامن سے میرے اشک سمیٹے لیکن
نہیں ممکن غمِ دل کا ظن و تخمیں ہونا

تیرے ہر درد کا پُر درد وہ ہونا شب بھر
تیری تصویر کا پھر باعثِ تسکیں ہونا

ہیں بہاریں بھی مری اب تو خِزاں کے جیسی
میں نے دیکھا ہی نہیں باغ کا رنگیں ہونا

خلشؔ
لارم اسلام آباد کشمیر
[email protected]

کچھ کام میں نے بچوں کو کرنے نہیں دیا
ایسا کیا کہ حد سے گزرنے نہیں دیا
جس سے کسی کا دل ہو دکھی ایسے کام کو
میں جان بوجھ کر اسے کرنے نہیں دیا
گلشن میں توڑنے کیلئے جب بھی ہم گئے
کانٹوں نے خود ہی گل کو بکھرنے نہیں دیا
ممکن جو ہو سکا اسے وعدہ وفا کیا
وعدے سے اپنے خود کو مکرنے نہیں دیا
جب سے ملی ہے تیری محبت کی روشنی
پھر چھت پہ اپنی چاند اترنے نہیں دیا
ٹکتی نہیں فقط وہی ظالم کی سلطنت
مظلوم کو بھی آہ جو بھرنے نہیں دیا
برباد تم بھی ہوتے یہی بات سوچ کر
حالات کو بھی میں نے بگڑنے نہیں دیا
اے لاڈلہؔ نہ سمجھے کوئی زلف کو گھٹا
زلفوں کو تیری میں نے بکھرنے نہیں دیا

میم عین لاڈلہ
کولکاتہ مغربی بنگال
موبائل نمبر؛919331457143

بیتی ہوئی بہاروں میں چُھپ گیا ہے
پیار کہیں تاروں میں چُھپ گیا ہے

طوفان قیامت کا سا ہے اُٹھایا کسی نے
اور کوئی دھاروں میں چُھپ گیا ہے

پوچھا جو ہم نے یہ کہ کہاں ہے
کہا اُس نے ستاروں میں چُھپ گیا ہے

پیار جو ہم تُم میں بھی تھا کبھی
بھولی یادگاروں میں چُھپ گیا ہے

صورتؔ ایک قطرہ تھا اوس کا
وہ جو آبشاروں میں چُھپ گیاہے

صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

اب یہ شہر ویران دکھتا ہے
یہاں ہر کسی کا ضمیر بکتا ہے
سوچ سمجھ کر یہاں لوٹ ہوتی ہے
یہاں سیدھا سادہ انسان کہا ٹکتا ہے
محبت اب تجارت بن گئی ہے
اب کون کسی پر مر مٹتا ہے
کہنے کو لاکھوں لوگ ہیں یہاں
زخم کا کیا ہے، یہ تو رستا رہتا ہے
بہانے کو خون اور ماتم کے لئے ماتم کدے
ظلم کی چکی میں معصوم پستا ہے
سہانے موسم بھی اب خزاں دکھتے ہیں
دوست کے روپ میں سانپ ڈستا ہے
ہوس اور لالچ یہاں راج کرتے ہیں
بے ضمیر قہقہہ لگا کے ہنستا ہے
اس شہر کو جہنم کہنا صحیح ہے مصطفیٰؔ
سیاست اور معاشرت میں غریب پھسلتاہے

سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، بڈگام