غزلیات

بر مصرع بشیر بدر

وہ کنجی خوشی کی مِرے ہاتھ ہو گی
’’ تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی ‘‘

مرے عشق میں کچھ نئی بات ہوگی
” تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی ”

سفر کی طوالت گھَٹے گی یقیناً
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی”

ملے گا سکوں مضطرب دل کو لیکن
” تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی ”

تکانِ سفر دور ہو گی، یہ سچ ہے
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہوگی”

میں چلتا رہوں گا کڑی دھوپ میں بھی
” تمہاری محبت اگر ساتھ ہوگی ”

مسائل وسائل نہیں کوئی معنیٰ
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی”

مجھے درد الفت گوارا ہے ماہی
” تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی ”

توجہ، تعلق، یہ سب پیار ہوں گے
” تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی ”

میں خود کود جاؤں رہِ پُرخطر میں
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی”

تبھی چاہ سے راہ کا ہو گا ملنا
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی”

ثمر عشق کا تب ہی میٹھا لگے گا
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی”

جہنم کے شعلے بھی گلزار ہوں گے
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی”

محبت خدا ہے، یہ سمجھا ہے شاہد ؔ
“تمہاری محبت اگر ساتھ ہو گی”

علی شاہد ؔ دلکش
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج
[email protected]
موبائل نمبر؛8820239345

عدل کی روشنی دیکھتے دیکھتے
بجھ گئی زندگی دیکھتے دیکھتے
پاس آکر سمندر کے یہ کیا ہوا
بڑھ گئی تشنگی دیکھتے دیکھتے
بے وفا آنکھ سے خواب تک چھن گیا
لُٹ گئی ہر خوشی دیکھتے دیکھتے
بھوک کے سامنے آج بھی کس طرح
بِک گیا آدمی دیکھتے دیکھتے
میں نے دو ٹوک باطل سے حق جو کہا
بڑھ گئی دشمنی دیکھتے دیکھتے
جان پایا نہ غم کوئی دوشیزہ کے
کر گئی خود کشی دیکھتے دیکھتے
جس کے ہونے پہ گوہر تھے نازاں سبھی
چل دیا ہے وہی دیکھتے دیکھتے

گوہر بانہالی
بانہال رام بن
موبائل نمبر؛9906171211

لفظوں سے کھیلنے کا سلیقہ سکھا گیا
فن بن کے وہ وجود میں میرے سما گیا
یہ اس کے دل سے نکلی دعاؤں کا فیض ہے
دنیائے شاعری پہ جو میں آج چھا گیا
کرتا ہوں میں اس اعلیٰ سے فنکار کو سلام
جو مجھ سے سنگریزے کو ہیرا بنا گیا
شاید کہ آندھیوں کی ضمانت تھی اس کے پاس
وہ اک دیا ہواؤں کی زد پر جلا گیا
جب گردشوں کی ہونے لگیں مجھ پہ بارشیں
وہ سائبان بن کے مرے سر پہ چھا گیا
یہ کون میرے دھیان کی سیڑھی پہ دھر کے پاؤں
چپکے سے صحنِ قلب میں اے دوست آ گیا
اک شخص میری آنکھوں کے آنگن میں آن کے
بیٹھا ہی تھا کہ اٹھ کے اچانک چلا گیا
کیا اجنبی تھا جو فقط اک رات کاٹ کے
میری سرائے دل کا مقدر جگا گیا

ذکی طارق بارہ بنکویؔ
سعادت گنج، بارہ بنکی، اترپردیش
موبائل نمبر؛7007368108

پلکوں پہ خواب اس کو سجانے نہیں دیا
ہاں ! اس بہانے چین چُرانے نہیں دیا

لمحے کی اک خطا نہ بنے عمر بھر سزا
آئے مگر وہ آنکھ ملانے نہیں دیا

جو کچھ ملے زمانے سے رکھنا سنبھال کر!
ہم نے تو دل کا داغ مٹانے نہیں دیا

شب کے سفیر ! راہ گزر ہے بہت کٹھن
قندیلِ عشق بجھنے بجھانے نہیں دیا

وہ سب کہاں گئے جو سر راہ تھے کبھی
روشن چراغ ،کس نے جلانے نہیں دیا

تجھ سے بچھڑ کے یاد کیا ہر گھڑی صنم!
عہد وفا جبیںؔ نے بُھلانے نہیں دیا

جبیں نازاں
لکشمی نگر ،نئی دہلی
[email protected]

رب کے حکم سے آئے موت
زخم بھی گہرا لگائے موت

اپنے پیاروں کو لمحے ہیں
دور کہیں لے جائے موت

جس کی جہاں لکھی ہوئی ہو
وہیں پر پہنچائے موت

پل دو پل کا سارا کھیل
پھرے تا عمر ، پھر کھائے موت

کھٹن ہو جائے سفر زندگی کا
کیا کیا رنگ دکھائے موت

بہانہ کچھ نہ کچھ ہو جائے
سحرؔوہی کہلائے موت

ثمینہ سحر مرزا
بھڈون، راجوری

شریں من کو کیسے رکھوں ایسے سروں کے بیچ
میں تو ہوں نادان بہت ہی بازی گروں کے بیچ

دل کی دنیا چند گھڑی ہی کب آباد رہی ہے
میں نے دیکھی گویا جدائی دلداروں کے بیچ

حادثے دیکھو کیا کیا نہیں میری را گزر میں ہیں
عمر تو ساری میری گزری نشتروں کے بیچ

اُبھرے گا اِک طوفاں بن کے گفتار مفکروں کا
مانا ابھی وہ اُلجھے ہوئے ہیں بازی گروں کے بیچ

راہزنوں کو ٹوکنا اب بس میں نہیں ہے سعیدؔ
ٹوٹا ہوا اب آئینہ ہوں پتھروں کے بیچ

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380

میری اذیتوں کا اب یہاں شمار نہ رہا
مجھ کو منصف پر بھی اب اعتبار نہ رہا
میں تیرے ظلم و ستم بیاں تو کرسکتا
مگر موسم اب یہاں سازگار نہ رہا
صیاد ترے لگائے زخموں کو میں بھول جاتا
مگر میرے اس دل پر اب اختیار نہ رہا
ہے کوئی جو میرا اب مونس تنہائی بنے
میرے پاس تو اب کوئی یارِ غار نہ رہا
یہ تاریک دور تو گزر ہی جائے گا مگر
دل کو میرے اب یہاں قرار نہ رہا
میں آئینے کے سامنے خود کو کیوں سنوار لو
دیکھنے کو اب مجھے یہاں میرا یار نہ رہا
تیرے جھوٹے وعدوں نے مجھے اسیر بنا دیا
رہبر مجھے اب تمہارا بھی انتظار نہ رہا
خاموشی,بے قراری اکیلا پن سب کچھ رہ گیا
رہا اگر کچھ نہیں تو وہ بس میرا دلدار نہ رہا
راشد ؔتیری ہر ایک چاہ وہ قبول کرتا
مگر تو کبھی یار کا وفادار نہ رہا

راشد اشرف
کرالہ پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105

چلو قسمیں وعدے مکمل کریں ہم
یوں ہی سنگ رہ کے جئیں اور مریں ہم

طیبہ میں ہر سُو سکوں ہی سکوں ہے
وہاں جا کے اپنا گزارا کریں ہم

یہ جاں اپنی کیا ہے یہ اپنا لہو بھی
نذرانہ جاکے وہاں پر کریں ہم

جو خوشبو سے مہکی وہ کلیاں حسیں ہیں
مہک انکی سارے دلوں میں بھریں ہم

مرناہی اک با رہے ہم کو طلحہؔ
تو اللہ سے اپنے ہی کیوں نہ ڈریں ہم

جنید رشید راتھر (طلحہ)
آونورہ شوپیان کشمیر

یہ زندگی بھی ظالم ہے کیا کیا سکھا دیتی ہے
ہم کتنے بھی خوددار ہوں پھر بھی جھکا دیتی ہے

کچھ اپنوں کی عنایت ہے کچھ غیروں کے ظلم
سب سہہ سکے اِک انساں بندی بنا دیتی ہے

عجیب کہانی ہے اس شہر کی سمجھیں کیسے
بات چھڑتی ہے جب وفاکی مجھ کو رُلا دیتی ہے

بات دنیا کی کروں تو حقیقت کچھ اس طرح ہے
زخم ماتھے کے چُھپ جائیں سہرے سجادیتی ہے

کون کہتا ہے یہاں کوئی ہے کسی کا سلیمہ
محبتوں کے پُجاریوں کو نفرت دبا دیتی ہے

سلیمہ ملک
درہال راجوری، جموں