غزلیات

کیا پتہ کون کب گزر جائے
یہ قیامت کی شب گزر جائے

وقت ٹھہرا ہوا ہے صدیوں سے
عین ممکن ہے اب گزر جائے

دل بہت مطمئن سا رہتا ہے
قافلہ غم کا جب گزر جائے

وہ نہ ٹھہرا جسے ٹھہرنا تھا
اب جہاں سب کا سب گزر جائے

میں نے یادوں کی اوڑھ لی چادر
اس سے کہہ دو کہ اب گزر جائے

یہ بھی جاویدؔ کیا قیامت ہے
تشنگی زیرِ لب گزر جائے

سردارجاویدؔخان
مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198

زِندگی تمہیں دِکھانا پڑتا ہے
ہر ضبط آزمانا پڑتا ہے
کہیں راز اِفشا نہ ہو ہم سے
ہر کسی سے چُھپانا پڑتا ہے
غم چُھپانے کا یہ بھی اِک ہنر ہے
بے وجہ ہی مُسکرانا پڑتا ہے
نیند کوسُوں دُور ہے مجھ سے
تھپکیاں دے کے سُلانا پڑتا ہے
ہے والہانہ محبت اُن سے
ہر وقت ہی جتانا پڑتا ہے
تبّسم ، تکلّم ہے عارضی سب
پھر بھی اُن سے نِبھانا پڑتا ہے
اب تلک کس خوش فہمی میں رہا مشتاق
دل کو ہر وقت یہی سمجھا نا پڑتا ہے

خوشنویس میر مشتاق ؔ
ایسواننت ناگ، کشمیر
[email protected]

چمکتے ہیںاُن کی قسمت کے آسماں پہ تارے
اور ہم بھٹک رہے ہیں تقدیر کے ہی مارے

تقدیر جب ہو بگڑی تو چلتا ہے زور کس کا
ہم بھی تو مقدر سے زور آزما کے ہارے

ایسا بھی کیا کوئی ہے انسان اِس جہاں میں
ارمان دِل کے جس کے نکلے ہوئے ہوں سارے

رونق تو ہے اُن ہی سے محفل میں اِس جہاں کی
وہ گر نہیں تو پھیکے ہیں دنیا کے سب نظارے

ہے تار تار صورتؔ دامانِ مفلسی یاں
اور دیکھ لے اُدھر ہیں دامن میں چاند تارے

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

یہ خونِ ناحق اور نہ بہے ،خدا خیر کرے
اب کوئی قفس میں بھی نہ رہے ،خدا خیر کرے

یہ صیام اور یہ عیدیں لوٹ آئیں گی پھر
جو نہ آئیں گے ان کا کیا کہے خدا خیر کرے

جو چھوڑ کے ہم کو چلے اس حال میں اب تو یہاں
یہ درد ہم ان کا کتنا سہے خدا خیر کرے

ہم بھی تو حسینی ہیں ہم نے یہ عزم کیا
کبھی نہ ہم شمر کی راہ چلے خدا خیر کرے

طلحہؔ تیرا یہ قلم نازک ہے ، ہے صحیح
یہ حق کے لئے جو نہ اب اُٹھے خدا خیر کرے

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛8494075973