غزلیات

پُھول، خوشبو، رنگ، موسم تتلیاں دیکھی نہیں
اس طرح ہم نے کڑکتی بجلیاں دیکھی نہیں
جس طرح اس شہر میں ملبہ ہے بکھرا ہر طرف
اس طرح ہم نے اُجڑتی بستیاں دیکھی نہیں
مصلحت کوشی میں اُس نے فیصلہ تو دے دیا
اک نظر حاکم نے لیکن عرضیاں دیکھی نہیں
زلزلے کے بعد تھیں پیروں تلے کچھ اس طرح
نام والوں کی کسی نے تختیاں دیکھی نہیں
چاندنی بھی کررہی ہے کاخِ اُمرا کا طواف
تھیں غریبوں کی کھلی پر کھڑکیاں دیکھی نہیں
کی دعا بارش کی کھیتوں کے لئے ہم نے مگر
دُور تک اس آسماں پہ بدلیاں دیکھی نہیں
میری بستی کا جو جاہل تھا وہ لیڈر بن گیا
وائے قسمت ووٹروں نے ڈگریاں دیکھی نہیں
اب کے بارش جھونپڑی پر اس قدر برسی کہ بس
میرے بچوں کی کتابیں کاپیاں دیکھی نہیں
وقت کی تلوار نے سر کر دئیے سب کے قلم
ذات، مذہب، نام، دولت، پگڑیاں دیکھی نہیں

پرویز مانوس
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142

 

 

 

جو سمجھ پایا نہ کوئی اُس کہانی کی قسم
زندگی اپنی گنوا دی زندگانی کی قسم
وہ ’’عقیبہ‘‘ نام جس کا ایک حصہ میں بھی تھا
’’فارہا‘‘ کے خواب جیسا ’’جون جانی‘‘ کی قسم
کس طرح رخصت کیا مہمان کی مانند مجھے
اب تلک حیراں ہوں تیری میزبانی کی قسم
یہ وہی رستے ہیں جن سے تم گزرے تھے کبھی
یہ وہی نقشے ہیں تیری ہر نشانی کی قسم
کس گماں میں جی رہے ہو تم کہ میں تیرا ہوا
میں تو اپنا بھی نہیں دنیائے فانی کی قسم
اِک سمندر چیختا تھا اپنی لہریں دیکھ کر
ایک دریا کہہ رہا تھا میرے پانی کی قسم
عمر میری میرا بچپن اور بڑھاپا بس عقیل ؔ
اور جوانی ڈھل گئی جوشِ جوانی کی

عقیل فاروق
بنہ بازار شوپیان
موبائل نمبر؛7006542670

دل کو بہلایا بہت کچھ بہلتا بھی نہیں
حد یہ ہے چارہ گروں سے سنبھلتا بھی نہیں

کیا اثر باقی نہیں اب دعاؤں میں رہا
یا مقدر کا لکھا ہی بدلتا بھی نہیں

حوصلے والے فلک چھو کے آئے ہیں مگر
کم ظرف سائے سے آگے نکلتا بھی نہیں

درد کے موسم میں دل مسکراتا تھا کبھی
اب طرب کی محفلوں میں مچلتا بھی نہیں

کچھ تو تھا افسوس اس کو ہماری موت کا
ورنہ ہاتھوں کو ستمگر مسلتا بھی نہیں

سخت کتنا کر دیا وقت کے آلام نے
اب بدن کی آگ سے دل پگھلتا بھی نہیں

کاش عارفؔ آشنا وہ مصائب سے ہوتا
دیکھ کر میری تباہی اُچھلتا بھی نہیں

جاوید عارف ؔ
شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298

میرے لب پے فُسوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟
پاس ہو کے نِگُوں ہے! یہ کیوں ہے بتا
میں نے تو زندگی وار دی ان پہ جو
دور مجھ سے گزوں ہے!یہ کیوں ہے، بتا؟
لٹکی ہے ننگی تلوار سر پہ میرے
حال زار و زبُوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟
میرے زخموں کے ٹانکے ہرے رہنے دو!!!
اس تڑپ میں سکُوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟
آدمی جستجو آرزو کیا کرے
جب سبھی کچھ نِگُوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟
چاک کردو میرے جسم سے میرا نفس
دوری میں اک سکُوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟
ختم ہے سحر باطِل کا اثر و رسُوخ
دل ہی صیدِ زبُوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟
بس یہی شعر ، شاعر ہے اور شاعری
میرا کارِ فزوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟
پھونک ڈالوں گا یاورؔ میں ارمان کی خاک
بس یہی اک جنوں ہے! یہ کیوں ہے، بتا؟

یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

کسی درد و الم سے کیا کم ہے
یہ شامِ غم بھی کیا غم ہے
جانے کیوں اب تو یہاں اتنا
روٹھا مجھ سے وہ ہمدم ہے
میں کیسے کہوں گا اب یہاں پر
مرا وعدہ نہ یہ مرے بلم ہے
ہوا یوں جدا ہے جب سے مجھے تو
دل کا ہوا درد نا یہ کم ہے
اس پیار کا درد اب دیکھنے آ
ہوتا کیسا مرے بلم ہے
رکھا اس نے کیسا ہے طلحہ ؔ
ترے ان زخموں پہ مرہم ہے

جنید رشید راتھر (طلحہ )
آونورہ شوپیان