غزلیات

 

حقیقت جان کر ایسی حماقت کون کرتا ہے
بھلا بے فیض لوگوں سے محبت کون کرتا ہے

جو بیگانے وفا سے ہوں خبر رشتوں کی اُن کو کیا
ایسے نادان دوستوں پر عنایت کون کرتا ہے

نہیں ہونا خفا مظلوم سے اے وقت کے منصف
تیرا رتبہ ہے شاہانہ، ملامت کون کرتا ہے

ہیں مال و زر کے پیچھے کیوں ہمارے سنت اور صوفی
بھلا وہ سوچتے اپرادھ کیا ہے اور عبادت کون کرتا ہے

بہت ماحول ڈر اور خوف کا رندوں میں ہے واعظ
گنہگاروں کی آکر پھر مروّت کون کرتا ہے

لگے فریاد کرنا جرم ہے چارہ گروں کو اب سعیدؔ
ہے استفسار میرا یہ بغاوت کون کرتا ہے

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380

میرے خدا کسی کے لئے روتے نہیں ہیں ہم
دیر تلک تو رات میں سوتے نہیں ہیں ہم

پل بھر میں اوروں کو بھول ہی جاتے ہیں
پر اپنوں کو کھبی بھی کھوتے نہیں ہیں ہم

جس سے نفرت پھیلے اے مری جاں سن لے
ہائے ایسے بیج تو بوتے نہیں ہیں ہم

مل جل کر جو چلتے ہیں ساتھ یہاں
پھر بے وفا ایسے میں ہوتے نہیں ہیں ہم

جو کرتے رہتے ہیں فتنے کی بات یہ اب
ان کی خاطر لہو بچھاتے نہیں ہیں ہم

دے دیتے ہیں جو لہو وطن کی خاطر ہی
ان پہ یہاں اک پل تو روتے نہیں ہیں ہم

جنید رشید راتھر (طلحہ)
آونورہ شوپیان کشمیر
[email protected]

میں صبح ہی لوٹ آئوں گا یہ کہہ کے چلا جاتا ہے
میرا سایہ مجھے یوں ہی دلاسے دے کے سُلاتا ہے

بس اُس کی یادوں میں کھو جاتی ہوں کچھ اس طرح
جیسے میخانے میں کوئی جام مجھے پِلاتا ہے

رات کٹتی ہے بس کروٹیں بدل بدل کے
کھو نہ دوں کہیں اُس کو یہ خیال بھی رُلاتا ہے

میری تنہائیاں، میری اُداسیاں یہ احساس دلاتی ہیں
یہ تو وعدوں کی ہے دُنیا، یہاں کون نبھاتا ہے

بس ریت کے ڈھیر بنانا تُو چھوڑ دے
سلیمہؔ لہو کا دور ہے پیاس پانی سے کون بجھاتا ہے

سلیمہ ملک
درہال، راجوری