غزلیات

مرے گھر جب بھی آتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی
مجھے بے حد رُلا تے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

بیاں کر کے دبے الفاظ میں نوحہ وہ آنکھوں سے
مرا پھر دل دُکھاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

یقیناً خون کے قطرے کہیں دیکھے ہیں دھرتی پر
تبھی تو پھڑ پھڑاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

تجھے زندان میں ظالم نے تڑپایا ہے ہر لمحہ
تری حالت بتاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

اندھیرے میں کوئی آہٹ انہیں بے چین کرتی ہے
یونہی کب غُل مچاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

صدائیں گولیوں کی گونجتی ہیں جب فضاؤں میں
سُنا ہے بھاگ جاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

بنانے بیٹھتا ہوں جب کبھی احساس کا پیکر
عجب نقشہ دکھاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

اُنہیں سودا ضمیروں کا کبھی کرنا نہیں آیا
پروں میں سر چھپاتےہیں تمہارے شہر کے پنچھی

تپش محسوس کرتے ہیں جہاں حالات کی مانوس ؔ
وہیں خیمے لگاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی

پرویز مانوسؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر،9419463487

نفرتوں کی آگ شعلہ بار ہے
مضطرب ہوں زندگی دشوار ہے

مارتے ہیں لوگ پتھر بس اُسے
دیکھتے ہیں جو شجر پھلدار ہے

کر فلک کی وسعتوں میں سیر کر
بند کمرے کی گھٹن آزار ہے

شہرِالفت کا سفر آساں نہیں
ہر قدم پر راستہ پرُ خار ہے

رکھ نظر میں موسموں کی کروٹیں
خوابِ غفلت سوطرح کا بار ہے

اک سمندر کی روانی دیکھ کر
میرا جذبہ بھی ہوا بیدار ہے

کام لفظوں سے نہ لے گوہرؔ فقط
شاعری کو خونِ دل درکار ہے

گوہر بانہالی
بانہال رام بن
موبائل نمبر؛9906171211

آنگن میں پیڑ ہے تو کبوتر بھی آئیں گے
بچوں کی پھر غلیل کے پتھر بھی آئیں گے

نکلے گا جب بھی ڈھونڈنے تو منزلِ نشاط
راہوں میں تیری غم کے سمندر بھی آئیں گے

سرسبز وادیوں میں پہنچنے سے پیشتر
جلتے ہوئے مکان کے منظر بھی آئیں گے

حق بات کے لئے تو لڑے گا تو غیب سے
تیری مدد کے واسطے لشکر بھی آئیں گے

اعمال تو نے جو بھی کئے جیتے جی رفیقؔ
یہ تیرے ساتھ قبر کے اندر بھی آئیں گے

رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
سبکدوش آفس سپرانٹنڈت BSNL

جو ہر اِک فن میں کامِل ہو
وہ اِس دُنیا میں شامِل ہو
پھر بھی ہم جاہی پہنچیں گے
گو کتنی دُور بھی ساحِل ہو
دُنیا میں رہنا ہے تو اگر
اِنسان نہ ہر گز جاہِل ہو
کیا سمجھائے گا اوروں کو
جو اِنساں خود سے غافِل ہو
وہ طوفاں ہو یا ساحِل ہو
تُو کبھی نہ اُن سے غافِل ہو
کیا پہنچے گا وہ منزل تک
جو روزِ ازل سے کاہِل ہو
اِس دُنیا میں اے پیارے ہتاشؔ
اِنسان کسی تو قابِل ہو

پیارے ہتاشؔ
دور درشن لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607

دین مِرا تو بے شک سب پر بھاری ہے
عملوں کی چادر دیکھی تو خا لی ہے

بول لبوں پر میٹھے دل نفرت انگیز
کون بتائے یہ تو بس عیاری ہے

سب کو ہے معلوم گناہ ہے دھوکہ دہی
یار مِرا، اِس فن کا خاص پجاری ہے

رحم عفو تو مذہب کا ہے خاص جزو
پھر کیوں تو بن بیٹھا اِک تاتاری ہے

عشق کبھی تھا خاص وصف دیوانوں کا
اب تو یہ بھی کھیل بنا بازاری ہے

مشتاق مہدی
ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053

جو ہر پل مسکرانا چاہتا ہے
کیا کوئی غم چھپانا چاہتا ہے
پرندہ دیکھ کر احوالِ دنيا
قفس میں لوٹ آنا چاہتا ہے
جسے بخشی خدا نے بادشاہی
وہ نامِ حق مٹانا چاہتا ہے
ادھوری خواہشوں کایہ سفر اب
کہیں تکمیل پانا چاہتا ہے
کسی نے زندگی کے بیج بوئے
کوئی بستی جلانا چاہتا ہے
وہیں پہ گردشِ ایام لے چل
یہ دل بچپن پرانا چاہتا ہے
تیری آنکھوں میں پلتا خواب مصباحؔ
حقیقی آشیانہ چاہتا ہے

مصباح فاروق
لرو ترال، کشمیر
[email protected]

مقامِ مرگ پڑتا ہے تری ہر یا د کے آگے
میں اکثر ہار جاتا ہوں دلِ برباد کے آگے

گریباں چاک ہو جائے مگر غیرت رہے قائم
کوئی دامن نہ پھیلائے درِ بیداد کے آگے

کبھی راحت کا ساماں ہے کبھی بنتا ہے دردِ دل
پریشاں ہوں بہت تیرے غمِ متضاد کے آگے

سخاوت کا وہ پیکر ہے خلشؔ معلوم ہے مجھ کو
مگر پتھر سا ہو جائے مری فریاد کے آگے

یہ مانا تم پہ گزری ہیں قیامت خیز راتیں بھی
مگر پھر بھی نہیں یہ کچھ مری رُوداد کے آگے

نہ پوچھو شہرِ اُلفت کی خلشؔ سکرات کیسی ہے
نکل کر روحیں مرتی ہیں یہاں اجساد کے آگے

خلشؔ
لارم اسلام آباد
[email protected]

ارمان کتنے دل میں ہمارے مچلتے ہیں
تصویر تمہاری ہم جب بھی دیکھتے ہیں

ملتا مگر وہی ہے جو ہوگا مقدر میں
ہم خواب اپنے دل میں کیا کیا نہ سجاتے ہیں

کرتے ہیں ہم سے جو وہ سارا دکھاوا ہے
بھولے سے پیار جس کو ہم دل سے سمجھتے ہیں

کیسے بیاں کریں ہم اُس حُسن کے مناظر
آنکھوں میں جو تمہاری جم جم کے دیکھتے ہیں

کیا کیا نہ سیکھتے ہیں ہم زندگی سے یارو
گرتے ہیں روز لیکن پھر اُٹھ کے سنبھلتے ہیں

صورتؔ ہر ایک جانب ہوتا ہے چراغاں تب
دو دل محبتوں سے سرشار جب ملتے ہیں

صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

زباں پہ اُسکے اظہارِ محبت شاید نہ آئے
جو خط لکھا ہے اُس پہ یہ دستخط شائد نہ آئے

ہم اُسکے شہر میں رہتے ہیں فقیروں کی طرح
ہمارے حق میں کوئی منزلت شائد نہ آئے

نئے غم دے کر دلکو داغ دار کیا دیکھو
مگر پھر بھی زباں پہ میری شکایت شاید نہ آئے

وفورِ غم سے تڑپتا ہے قیس خاک پہ کیسے
نظر لیلیٰ کو مگر اس میں عبرت شائد نہ آئے

اُبھرتی سرد ہوائیں ہیں خانۂ دل میں
زمینِ عشقِ و محبت پہ فصل چاہت شاید نہ آئے

بھرا ہے دل بہت ہی بے وفائی سے تیرا عثمانؔ
کہ اُس کی یاد بھی اب تاقیامت شائد نہ آئے

عثمان طارق
ڈول کشتواڑ
موبائل نمبر؛9797542502