غزلیات

اس کے منہ کا کڑوا بول بھی کیسا تھا
دودھ میں جیسے شہد ملا ہو لگتا تھا

اب تو اس میں یادوں کا ہے شور بہت
من کا آنگن ،پہلے سُونا سُونا تھا

سوچ رہا تھا آپ مرے گھر میں کیسے
آنکھ کھلی تو سمجھ میں آیا سپنا تھا

آج بھی تم جلدی میں ہو، اچھا جاؤ
دل میں ہے جو بات بتا دوں سوچا تھا

جان سکا نہ ٹھیک سے اس کو میں یارو
پیتل تھا وہ ،جس کو سونا سمجھا تھا

اس دنيا کی بھیڑ میں تنہا چھوڑ گیا
جیون بھر جو ساتھ رہے گا کہتا تھا

آگے بھی وہ ہوگا ،جو ہونا ہے رفیق
وہی ہوا ہے اب تک جو کہ ہونا تھا

رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاشٹرا
سبکدوش آفس سپرانٹنڈت بی ایس این ایل

بولتے بھی نہیں مرے حق میں
حق و نا حق خموش بیٹھے ہیں
جب صبا تیرے یاد کی چلی ہم
بام گردوں پہ دوش بیٹھے ہیں
کیوں نہ ہوں جگ سے لا تعلق ہم
بھول شور و خروش بیٹھے ہیں
جب سے ہم ہو گئے ہیں سجدہ ریز
تب سے حلقہ بگوش بیٹھے ہیں
اب نہیں ہوں میں طوعاً و کرہن
کھو نوائے سروش بیٹھے ہیں
اب کریں بھی تو جبہ سائی کیوں
پئے مئے خِرقہ پوش بیٹھے ہیں
طائرِ بام ہیں کھڑے مایوس
نیم بسمل منوش بیٹھے ہیں
اک ترے ہی خیال سے باھر
سب مٹا کے نقوش بیٹھے ہیں
بربط و عودِ سوز میں یاورؔ
جھلملائے ندوش بیٹھے ہیں

یاورؔ حبیب ڈار
بن پورہ بڈکوٹ ہندوارہ، موبائل نمبر؛6005929160

تھوڑی سی زندگی ہی تو ہے
کافی اللہ کا در ہی تو ہے
چھپکے سے لیتا ہے جو یہ غم
نام ان کا سمندر ہی تو ہے
در ہے آقا کا دیکھو ِ جو
وہ نور منور ہی تو ہے
جو بھی مرتا ہے دیں پہ یہاں
وہ اس کا قلندر ہی تو ہے
راہِ حق پے جو لہو دے گیا
اسکا رتبہ بالا تر ہی تو ہے
مری قسمت میں نہ تھا وہ طلحہ
ترا اپنا مقدر ہی تو ہے

جنید رشید راتھر (طلحہ )
آونورہ شوپیان ، کشمیر

وہ موسم ذوق کے، دلبر گئے کب کے
جو تھے کچھ لوگ زندہ، مر گئے کب کے
نہیں آئے گا کوئی دل کی نگری میں
جنہیں آنا تھا وہ آ کر گئے کب کے
تو اب کیا ڈھونڈتا ہے ڈھونڈنے والے
وہ سب دل باختہ بے گھر گئے کب کے
یہاں اب کچھ نہیں ہے دل لگانے کو
نظر والو، پری پیکر گئے کب کے
کوئی کیونکر یہاں آئے دلِ ناداں
وہ۔۔ غافل! راہی و رہبر گئے کب کے
جہانِ تیرگی کے راہرو جو تھے
وہ بزمِ شمع سے اُٹھ کر گئے کب کے
دُکانِ دید اب تم بند ہی رکھنا
طلب گارِ جفا، سب مر گئے کب کے
نہیں ہے کچھ عجب اس رنگ سازی میں
وہ پکے رنگ بھی بکھر گئے کب کے
کہ اپنے اپنے حصے کا وہ دکھ لے کر
وہ سب فرقت کے مارے گھر گئے کب کے

شہریار
اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105

میری تقدیر میںکیاتھا یہ سوچتی رہ گئی
دُکھوں کی گٹھریاں اتنی تھیں کہ کھولتی رہ گئی

وہ تیغ کھینچے میری گردن پہ ایسے کھڑے تھے
شکایت کون سنتا میری بس بولتی رہ گئی

بیڑیاں پائوں میں تھیں پھر پیالہ بھی دُور تھا
زہر پی نہ سکی بس گھولتی رہ گئی

عجب لوگ تھے اور اُن کے ظلم بھی عجیب تھے
گھائو کتنے دیئے مجھ کو بس تولتی رہ گئی

کون کرتا ہے یہاں کس کی پیروی سلیمہؔ
مل نہ سکیں مجھے خوشیاں بس ٹٹولتی رہ گئی

سلیمہ اخترملک
درہال، راجوری

کیا صِلہ ملا ہے مجھ کو میری خدمتوں کا
فاتح پڑھ لیا ہے میں نے اپنی حسّرتوں کا

وفورِ شوق میں اکثر بہت بے چین پھرتا ہوں
بتا ! تم کو کچھ پتہ بھی ہے اپنی غفلتوں کا

گنوا دی عمر ساری ہم نے یوں ہی سر کشی میں
اب تو بس اِک آسرا ہے میرے مولا ! تیری عنایتوں کا

چھپا لیا ہے خود کو ظاہر و باطن کے پردوں میں تونے
پھر بھی ذرّے ذرّے سے جھلکتا ہے نُور تیری جلوتوں کا

کہی ایسا بھی ممکن ہو کوئی تمہیں لاکھ چاہے خود سے بھی زیادہ
کوئی ہمسر ہو ہی نہیں سکتا میرے ربّ کی شفقتوں کا

اِک اُمید پہ ہی قائم و دائم میری ساری دُنیا خدایا !
میں تو مشتاقِ دید ہوں کب سے تیری رحمتوں کا

خوشنویس میر مشتاق
ایسو اننت ناگ، کشمیر
[email protected]