غزلیات

روبینہ میر کی شاعری میں’’یقیں و اوہام ‘‘ کا سفر
تحریر
ڈاکٹر گلزار احمد وانی
روبینہ میر کی دہائیوں سے تخلیق کی وادیوں سے گزر رہی ہیں وہ جموں و کشمیر کی اُن نمائندہ شعری آوازوں میں ایک منفرد آواز ہے جنہوں نے پروین شاکر کی طرح ادبی حلقوں میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ وہ ایک غزل گو کی حیثیت سے کافی مقبول ہو چکی ہیں۔ اور تمام ادبی حلقوں سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ راقم کے پاس ان کا ایک شعری گلدستہ بنام ”اضطراب“ موجود ہے جس میں نظموں کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی وافر تعداد میں موجود ہیں ۔
جہاں تک ان کے موضوعات کا تعلق ہے انہیں اپنی بات کہنے میں لفظیاتی اعتبار سے کہیں کوئی دقت پیش نہیں آرہی ہے۔ یوں وہ ہر ایک موضوع پر اپنا اندرون باہر نکالنے میں نہ صرف بضد ہیں بلکہ کامیاب بھی۔
روبینہ میر کی شاعری میں جس خاص موضوع کی طرف راقم کا دھیان اٹ گیا ہے وہ یہ کہ ان کی شاعری میں جہاں امید و بیم ہے وہاں اوہام کے دوش بہ دش یقیں کا ایک لا متناہی سلسلہ بھی پایاجاتا ہے۔ بقول پروفیسر وہاب اشرفی
” پوئٹکس (poetics) یا شعریات کی تفہیم میں بہت سے مرحلے ہوتے ہیں پھر بھی کسی شاعر کے اختصاص کو نشان زد کرنے کے لیے اس کی پوائٹکس (poetics) کی تلاش کرنی ضروری ہے۔ویسے یہ لفظ بذات خود معنوی اعتبار سے کافی وسیع ہو گیا ہے لیکن اس کا بنیادی رشتہ تخلیق کا مرحلہ ہے یعنی یہ کہ شعر کی تشکیل کے سلسلے میں خلاقیت کا کس حد تک ثبوت فراہم ہو رہا ہے “
نئی سمت کی آواز پروفیسر وہاب اشرفی ص نمبر 84 ایجوکیشنل پبلشنگ ہائو س دہلی۔اشاعت 2010
روبینہ میر اپنی شاعری میں جن لفظیات کا بر محل استعمال کرتی ہیں،اُن سے ان چیزوں کا پتہ لگانا اب آسان سا ہو گیا ہےکہ ان کے جذبات، جو کہ سیل رواں کی مانند بہہ رہے ہیں، کا ماخذ کیا ہے اور وہ سُوتے، جہاں سے انہیں اپنے احساسات کے اظہارکی راہ مل جاتی ہے ،کیا ہیں۔ ان کی لفظیات میں جو قوت اور حرکت ہے وہی انہیں اس سیل رواں کو بہہ جانے کا ایک نیا راستہ چھوڑ جاتے ہیں ۔ موصوفہ کا اسلوب بھی دلکش اور شیریں ہے۔اور انہیں اپنی بات کہنے میں اور قاری کےسامنے رکھنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے اشعار وافر تعداد میں ان کے یہاں پائے جاتے ہیں جن میں یقیں کے ساتھ ساتھ اوہام کا سفر لازم و ملزوم کی طرح عیاں وبیاں ہوا ہے۔
دیر وحرم ہوں یا ویرانہ
ایک منزل ہے کتنے رستے

سرحد وہم و گماں سے گزرے
کیا کہیں کہاں کہاں سے گزرے

یہ جہاں یاد کرے گا برسوں
ہم جہاں جہاں سے گزرے

دل شکستہ نہیں ہو پائے ہم
بارہا آہ و فغاں سے گزرے

کوئی نہ تھا ساتھ اپنے روبینہ
جب بھی ہم وہاں سے گزرے
خزاں کی تھی جب دسترس ہر کلی پر
چمن میں بہاروں کا کھٹکا نہیں تھا

تیز ہیں غم کے الائو چپ رہو
اور ابھر آئیں نہ گھائو چپ رہو
مندرجہ بالااشعار میں یقیں اور اوہام کا ایسا سنگم مل رہا ہے کہ یہ بات طے پانا بہت کٹھن ہے کہ ان کے یقیں کا غلبہ اوپر یا حاوی ہے یا پھر اوہام کا۔ بہرحال کچھ بھی ہو یہ ایک ایسے شعری تخلیق کار کے اس سفر کے بارے میں عندیہ دے رہے ہیں کہ جس کے یہاں ان دونوں چیزوں کا ہونا زیست کی رونق کو دوبالا کرتا ہے۔ اور اس کے جڑوں اور پتوں کو مزید توانائی بخشتے ہیں ۔جب بھی کوئی غم کا الائی پھنک رہا ہوتا ہے تو اس کی أڑ میں زندگی اس رنگ میں اور رنگ جاتی ہے کہ جس کی صبحیں اور شامیں بہت ہی معنیٰ رکھتی ہیں۔
روبینہ میر جہاں اپنے اوہام کی حدوں سے گزرتی ہیں وہاں ایک نیا جادہ کانٹوں کی جاڑیوں میں سےنکال کے لاتی ہیں۔ اور زیست کی رنگینیاں اور بھی رنگدار اور پنکھدار بن جاتی ہیں ۔
ان کے یہاں امید کے ساتھ بیم بھی موجود ہے ،بالکل اسی طرح جس طرح ایک پھول کے ساتھ ساتھ کانٹوں کی سنگت ہوتی ہے۔ یہاں شعری کردار کبھی بھی ان چیزوں سے نہیں گبھراتا ہے اور نہ ہی خوف زدہ ہوتا ہے۔ وہ ایسے موسم بہار کی مانند ان چیزوں کو دیکھتی ہے کہ جہاں بادلوں کے گرجنےسے برسات کا آنایقینی ہو جاتا ہے تب جا کر زمیں سے نئی امیدوں کی فصل بھی اگ آتی ہے۔ یعنی اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تب تک انہیں کسی بھی طمانیت اور خوشی کا معنیٰ سمجھ سے بالا تر دکھائی دیتا ہے جب تک صعوبتوں کے بادل نہ گرجیں اور تب جاکر وہ خوشی اور وہ طمانیت مزید مسرت سامانیاں بہم کر سکتی ہیں ۔روبینہ میر کبھی بھی شکستگی میں یقین نہیں رکھتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ہر نئی سحر کی پو ظلمتوں سے ہی پھوٹتی ہے اور ہر بلا کے بعد مسرت سامانیاں میسر آتی ہیں۔ اور ایسے میں وہ اپنے ماضی کی یادوں کو اور مضروبیت سے بچاتی ہیں۔بلکہ یقین کے مضراب سے دوام بخشتی ہیں۔ وہ اپنے من کی جانب ہمیشہ سے ہی گامزن دکھائی دیتی ہیں۔جہاں سے انہیں اک طمانیت اور سکون مل جاتا ہے۔
مدتوں تک غیر کے بن کے رہے
اب تو ہم کو اپنا ہونا چاہئے

نفرتیں کتنی بھلے درپیش ہوں
بیج الفت کا ہی بونا چاہیے

دور ہوگی اور نظروں سے سحر
ہے بکھرنے کو شب ظلمات اور

غم کےجو بادل ہیں چھٹنے کے نہیں
کُھل کے برسے گی ابھی برسات اور
مندرجہ بالا اشعار کے ساتھ کئی دوسرے اشعار کی شکل میں بھی یہی اندر کی آوازیں آ رہی ہیں کہ ان کے یہاں انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ اپنے من پہ بوجھ برداشت کرکے بھی کسی سے ہنگامہ آرائی پہ نہیں اتر آئی ہے اور ہر جگہ اک نئے ضبط کا احساس جگا یا ہے۔ انہیں انسان سب سے پیارا ہے اور انسانیت کی شرمساری سے بیزاری ہے۔ اور اس عمل میں وہ پیش پیش ہیں کہ انسان انسانیت سے زندہ ہے اور جبھی یہ گن اس سے رفع ہو جائیں تو شرمندگی دامن گیر رہتی ہے۔ یہ احساس نہ صرف ان کی غزلیات میں جھلکتے ہیں بلکہ ان کی نظموں کو بھی تانا بانا فراہم کرتے ہیں ۔اس طرح کے احسات ان کی بیشتر نظموں میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔
کتنا اذیت پسند تھا
وہ شخص
جو میرا اعتماد توڑ کر
میرے یقین کو ۔۔۔۔حیرت میں
حیرت کو ۔۔۔۔
خوف و دہشت میں بدل کر
منا رہا تھا جشن
(نظم ”ایک احساس “ )
اور یہ تراشہ
۔۔۔۔تم زبان بن جائو
تم ہمارا احساس بن جائو
تم ہم میں سما کر ۔۔۔۔۔
ہمارا درد محسوس کرو
(نظم ”کڑوا سچ“)
اس طرح بہت ساری نظموں میں ایسے جذبات کا بہائو نظر آتا ہے۔ اگر چہ زمانے کے تمام ظلم و ستم ہنس ہنس کر دور جدید کاانسان اپنے اندر برداشت کر رہا ہے پرایسےحالات میں پھر بھی انہیں سہاروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ورنہ اس جدید دور میں انسان کا دم گھٹ سکتا ہے۔ ایک طرف انکے شعری کردار میں ہمت اور قوت موجود ہے اور وہیں دوسری جانب باقی لوگوں میں بھی ہمت اور قوت جگا رہا ہے۔اوریہ روبینہ میر کی شاعری میں ایک مضبوط وصف ہے جو کہ اوروں میں بہت کم دیکھنے کو مل جاتا ہے۔روبینہ میر کو رشتوں کی بحالی کا الم اور غم ہے۔ جیسا کہ دورجدید میں رشتوں کی سرد مہری دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں سے ان کے اس احساس کی بخوبی محسوس ہو رہی ہے۔ اس دور نے انسان کو اپنوں سے جدا کر وایا ہے۔خودکشیوں کے آئے دن واقعات میں بتدریج اضافہ ہو رہاہے۔ بھائی بھائی سے جدا ہے۔اس ضمن میں ان کی یہ نظم ”بھائی“ ملاحظہ ہو
ایک ہی ماں کی کوکھ سے
جنم لینے کے باوجود
ایک ہی گھر میں ساتھ ساتھ
پلنے بڑھنے کے باوجود
ایک ہی آنگن میں کھیل کود کر
جوان ہونے کے باوجود
وہ۔۔۔
میرے لیے کس قدر اجنبی ہوگیا تھا
کہ میں اسے دیکھ کر
پہچان نہ پائی
کچھ دیر دماغ پر
سخت زور ڈالنے پر
یاد آیا۔۔۔
کہ وہ میرا بھائی ہے
بھائی
ان مسائل پر بھی وہ کبھی امید کا دامن نہ چھوڑی ہوئی ہے اور عالمی مسائل جن میں موسمیات میں بدلائو کے بھی باس مل جاتے ہیں ،پر بھی ان کے نادر خیالات کی بھر مار ہے۔
مشینی دور میں جس طرح انسان اذیت ناکی میں اپنے صبح و شام گزار رہا ہے اس سے تو ہر ایک کی آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ ایک طرف تو مہنگائی کا زمانہ ہے اور دوسری جانب رشتوں کی بے مہری انسان کو گہری سوچ میں لے جاتی ہے مگر روبینہ میر جس طرح سے اس دور میں بھی اطمینان محسوس کر رہی ہیں اس میں بھی یقیں کے سو پردے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ ان کی زمیں سے ایسی ہی فصل نکلنے میں ماحول سازگار ہو تاکہ ہر ایک دہقان کبھی بھوکا نہ سوئےاور اوہام کا سلسلہ بھی اپنی خاتمیت کا اعلان کرے تاکہ قاری کےیہاں یقین ہی یقین محسوس ہوسکے ۔روبینہ میر کے یہاں جو یقین کے لئے لفظیات استعمال ہوئے ہیں وہ امید ، خوب ،جادہ نو، نیک قربت، گمان ، ناز، درستی، شجر،گوارا، راستہ،اور پھول وغیرہ اور جو اوہام کے زمرے میں الفاظ آتے ہیں ان کا تعلق بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ طریقوں سے مذکورہ بالا الفاظ سے ایک ربط اور جوڑثابت کر رہا ہے وہ ہیں۔ گمان، فریب، شکستگی، ڈر ، خوف ، بے چارگی ، وہم امتحاں، دوری، گزرگاہ، یخ بستگی، بے مہری، مکاری، جھوٹ، آہ و فغاں، اوربے آسراپن وغیرہ ۔اور کہیں کہیں ان کے یہاں مذکورہ بالا الفاظ تراکیب کی صورت میں بھی ظہور پذیر ہو جاتے ہیں ۔ان کے یہاں الفاظ کے استعمال میں موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے اور پھر پھر کے کہیں نہ کہیں یقین و اوہام کی گزرگاہ سے نکلتے ہیں ۔تب جاکر کوئی بھی موضوع کہیں بھی اپنی تنگ دامنی کا ثبوت فراہم نہ کرتے ہوئے اپنے دور رس نتائج سے آگاہ بھی کر لیتا ہے۔ جس کے لیے تخلیق کار کو اپنے اسلوب میں نادرہ کاری کا جذبہ دور سے ہی واقف کراتا ہے۔ روبینہ میر کے یہاں جذبات میں کم وزن دیکھنے کو مل جاتا ہے جب کہیں کوئی بھی موضوع اس طرح کا ہو تو متوازن سوچ اور اس کے لئے لفظیاتی توازن کا برقرار رکھنے کے شواہد ان کے یہاں ضرور ملتے ہیں۔روبینہ میر کا شعری سفر جس رفتار سے آگے آگے اپنے منازل طے کر پا رہا ہے اس سے تو یہی سفر آگے کی اور بڑے انہماک اور طمطراق سے بڑھ جانے کا قوی امکان ہے کیونکہ جس نہج سے ان کا قلم زمانےکی ستم ظریفیوں کو بیان کرنے کے لیے چل رہا ہے وہاں سے بہت سارے معنوی امکانات بر آمد ہو سکتے ہیں۔ وہ حالات کی نبض شناس شاعرہ ہیں تبھی اپنا کوئی بھی تجربہ اور مشاہدہ بیان کے قابل ہیں اور اعلیٰ ذہانت اور دیانت داری سے سماجی منظر اور پس منظر کی اتھاہ گہرائیوں سے انکو اپنے مطالعے میں لا کر ان کے شعری ازالہ بندی کی خواہش بے لاگ و بے داغ رکھتی ہیں۔ انہیں زمانے کی ستم ظریفی پر کبھی بھی افسوس نہیں ہے اور وہ جانتی ہیں کہ زمانے کی اتھل پتھل کے کھیل میں کچھ بھی ممکن ہے۔ پر انہیں حالات کے تغیر پر تفکیریت کی ستاش کی خلش محسوس ہو رہی ہے۔ یہاں میں ان کی ایک نظم پیش کرنا چاہتا ہوں ۔جس میں زمانے کے بدلے ہوئے چلن کا کہیں پر گلہ شکوہ کی بجائے قدروں کی شکست و ریخت کو مد نظر رکھ کر جو اظہار صلابتی پیرایئے میں بیان ہوا ہے وہ قابل مطالعہ ہے
نظم
”قصہ جو تم نے پوچھا ہے “
ذرا ٹھرو ۔۔۔۔۔ سنو جاناں
قصہ جو تم نے پوچھا ہے
شہر اب بھی ویسا ہے
بالکل پہلے جیسا ہے
وہ جب ہم ساتھ رہتے تھے
موسم۔۔۔۔۔تب بھی بدلتا تھا
موسم ۔۔۔۔اب بھی بدلتا ہے
کبھی پت جھڑ۔۔۔۔۔کبھی ساون
خزاں کے بعد گل لالہ۔۔۔
چڑیاں اب بھی چہکتی ہیں
کلیاں بھی مہکتی ہیں
جھرنے اب بھی کانوں میں
میٹھی بنسری بجاتے ہیں
کوئیل گیت گاتی ہے
من اب بھی لبھاتی ہے
سمندر اب بھی ٹھاٹھیں مارتا ہے
لہریں بھی اچھلتی ہیں
چاند آنگن میں آتاہے۔۔۔۔۔
تارے رقص کرتے ہیں
بادل بھی برستے ہیں
مگر بادل برستے ہی
حالات کا۔۔۔۔دریا
کیا کیا گل کھلاتا ہے
کبھی سرحد مٹاتا ہے
کبھی سرحد بناتا ہے
بہت کچھ بہا لے جاتا ہے
نئے رستے ۔۔۔۔۔بناتا ہے
نئی بستی بساتا ہے
نیا کچھ کر دکھاتا ہے
بچھڑوں کو ملاتا ہے
شہر اب بھی ویسا ہے۔۔۔۔۔بالکل پہلے جیسا ہے
وہ جب ہم دونوں بستے تھے
ساتھ روتے۔۔۔۔ہنستے تھے
مگر حالات کا دریا
جب اس سمت آتا ہے
کچھ تبدیلی لاتا ہے
نیا کچھ کر دکھاتا ہے
یہاں ایک ارتقاعی صورت حال کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد ایک قاری بنا داد دیئے نہیں رہ سکتا ہے۔اضطراب“ کا شعری گلدستہ اسم بامسمیٰ کی حیثیت رکھنے کے بعد ایک تخلیق کار کی تمام امیجری صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے جو کسی بھی تخلیق کار اور فن کار کی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہامنوانے کے لیے کافی ہے۔اوریہ روبینہ میر کی سب سے بڑی فلاح و کامیابی ہے۔
���
ٹینگہ پُنہ پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر؛7006057853