غزلیات

سب کی زباں پہ ہونگے حوالوں میں آئیں گے
تم دیکھ لینا ہم بھی مثالوں میں آئیں گے
ہم سے ملاؤ ہاتھ مگر دیکھ بھال کر
ہم وہ نہیں جو آپ کی چالوں میں آئیں گے
احساس تجھ کو ہوگا بڑھاپے کا اس گھڑی
چاندی کے تار جب ترے بالوں میں آئیں گے
کہتے ہو اب تو آپ ہمیں بھول جائیے
تب کیا کروگے ہم جو خیالوں میں آئیں گے
جن کے ضمیر بک گئے کردار گھٹ گئے
کس منہ سے ایسے لوگ اجالوں میں آئیں گے
روداد اپنے عشق کی جب جب پڑھوگے تم
“ہم بھی تمہارے چاہنے والوں میں آئیں گے”
دنيا پڑھے گی ہم کو بڑے شوق سے رفیق ؔ
شعروں میں ڈھل کے ہم بھی رسالوں میں آئینگے

رفیق عثمانی
آکولہ، مہاراشٹرا
[email protected]

لہو میں جو غیرت کی رنگت نہ ہوتی
جہاں میں کہیں بھی بغاوت نہ ہوتی

کسی سے کسی کی محبت نہ ہوتی
جواِک دوسرے کی ضرورت نہ ہوتی

نہیں کرتے ہم نکتہ چینی تمہاری
وطن سے ہمیں گر محبت نہ ہوتی

یہ سرحدیں ہیں سانپ ہی کی لکیریں
نہ ہوتیں تو پھر یہ عداوت نہ ہوتی

نہ پرواز ہوتی اگر تیری پنچھیؔ
کسی عرش کی کوئی عظمت نہ ہوتی

سردار پنچھیؔ
جیٹھی، مالیر کوٹلہ روڑپنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

کتنا گہرا ہے میری ذات کا دکھ
جیسے مجھ میں ہو کائنات کا دکھ
مجھ سے سورج طلوع نہیں ہوتا
یوں کہ ڈھلتا نہیں ہے رات کا دکھ
اس کے وہم وگماں میں تھا ہی نہیں
مثلِ نشتر تھا اس کی بات کا دکھ
ایک جانب چلے قضا اپنے
ایک جانب چلے حیات کا دکھ
کھیل چلتا ہے زندگی کا یوں ہی
خوش کوئی ہے کسی کو مات کا دکھ
اس سے پوچھو کہ عمر کیا گذری
جس پہ بھاری تھا التفات کا دکھ
اپنی محرومیوں پہ شکر کیا
جب سمجھ آیا شش جہات کا دکھ
آبِ زم زم تجھے کہاں معلوم
دشتِ کربل کا دکھ، فرات کا دکھ
حادثہ عشق کا ہوا عارضؔ
اب ہے پہلو میں ممکنات کا دکھ

عارض ؔارشاد
نوہٹہ سرینگر،9419060276

باغ میں دلکشی ہے ابھی
اک نظر کی کمی ہے ابھی
ہاں وہ عالم نہیں ہے مگر
عالمِ دل وہی ہے ابھی
گھر اگر ویراں سا ہے تو کیا
شمع تو جل رہی ہے ابھی
آہ دل کے کسی کونے سے
کوئی وحشت اٹھی ہے ابھی
اُجڑے چمن میں بھی تازہ سی
اک کلی پھر کھلی ہے ابھی
یار اب تو ترے یاروں کا
مشغلہ مے کشی ہے ابھی
ایک دفعہ ادھر دیکھو تو
دل کی نگری تری ہے ابھی
تو انا پر مری مت جا دل
وہ مری زندگی ہے ابھی
خون تو تھوکے گا باولا
چوٹ دل کی نئی ہے ابھی
چاند کو دیکھتا ہے کوئی
کوئی کھڑکی کھلی ہے ابھی
اب تلک پاس تھی میرے وہ
زندگی کھو گئی ہے ابھی

توصیف شہریار
اسلام آباد، اننت ناگ کشمیر
[email protected]>

بے وفا سے کی وفا اور کیا
جو پتھر کو خدا سمجھا اور کیا
جو نہ آئی راس یہ دنیا کو
ہے ہماری سچی وفا اور کیا
در در کی ٹھوکریں کھا کے اب
تو نہ کچھ آخر ملا اور کیا
سر اپنا پتھر سے پھوڑا جب
تو مرا خوش یار ہوا اور کیا
یوں امید کی بھی اب حد تو ہو گی
غم دل کی ہے انتہا اور کیا
دعا بس یہ مانگی تھی خدا سے
نا ہو بے وفا سے رشتہ اور کیا
طلحہؔ کا بھی درد تو یوں ہے بڑا
اب درد کو سمجھا دوا اور کیا

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان
[email protected]

گر محبت سزا ہو سز ا د یجئے
ورنہ دیدار اپنا کرا دیجئے

چھوڑ دو شوق سے اس سے پہلے مگر
کیا ہے میری خطا کچھ بتا دیجئے

آگئی تیرے آنگن میں میّت میری
میری حالت پہ اب تو دعا دیجئے

لوٹ کر آپ کے پاس آجاؤنگا
پیار سے مجھکو ہمدم صدا دیجئے

آرزو آپ رہبر ؔؔکی برلائیے
اپنے در پر کبھی تو بلا لیجئے

محمد رہبرؔ اسلام رہبر،بہار
طالب:دارالھدی پنگنور
آندھراپردیش

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے
چاندنی رات کو بد دعائیں نہ دے

گرنے والوں کو جو تھام پائے نہیں
اے خدا مجھ کو ایسی تو بانہیں نہ دے

ضبط ہاتھوں سے چھوٹے جنہیں دیکھ کر
میرے محبوب کو وہ اَدائیں نہ دے

میں سنبھل جائونگا خود ہے میرا یقین
تھامنے کو مجھے اپنی بانہیں نہ دے

گر خوشی دے نہ پائوگے غم بھی نہ دے
یہ کرم مجھ پہ کر سردآہیں نہ دے

ہو جنہیں سُن کے سمع خراشی بہت
ایسی نیئرؔ کو تُو اب صدائیں نہ دے

غلام نبی نیئرؔ
کولگام کشمیر
موبائل نمبر؛9596047612