غزلیات

مجھ سے میری آرزوئے جانِ جاں ناراض ہے
ایسا لگتا ہے کہ اب سارا جہاں ناراض ہے

پیڑ پودھے پُھول کلیاں تتلیاں بھنورے سبھی
پوچھتے ہیں کیوں ہمارا باغبان ناراض ہے

اِس کو کوئی بھی گلہ بادِ مخالف سے نہیں
ہاں میری کشتی سے اُس کا بادباں ناراض ہے

ایک عرصے سے گُریزاں ہے تیری تیکھی نظر
میرے سینے سے ہی کیوں تِیرو کماں ناراض ہے

ایک بھی میرا عریضہ لے کے یہ جاتا نہیں
اےندی کیوں اب تیرا آبِ رواں ناراض ہے

کوئی بھی پرواز پنچھیؔ ملتوی کرنا نہیں
ہونے دے گر تجھ سے تیرا آسمان ناراض ہے

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑکھنہ ،پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

خیالِ یار کا شب بھر وبالِ جان ہو جانا
در و دیوار کا اکثر خلِشؔ زِندان ہو جانا
فِراقِ یار میں ہم نے یہ منظر بارہا دیکھا
سِتاروں سے بھرے آکاش کا سُنسان ہو جانا
رِوایت میری بستی کی کئی برسوں پرُانی ہے
یہ آدھی شب کسی کی موت کا اعلان ہوجانا
کبھی اک یاد کا راحت کا یوں سامان ہو جانا
کبھی اک یاد کا ہر پل لہو افشان ہو جانا
تغافل میری حالت پر بڑا آسان ہے تجھ کو
بڑا دُشوار ہے تم سے یوں بے پُرسان ہو جانا
ہوا جب ذکر تیرا تو غزلخوانی ہوئی پرُنم
قلم کاغذ کا دیکھا ہے لہو لہان ہو جانا
کبھی غم میں ٹپکتا ہے لہو نوکِ قلم سے تو
کبھی احساس کے الفاظ کا فُقدان ہو جانا

خلشؔ
لارم اسلام آباد کشمیر
[email protected]

جانِ محفل بن گیا وہ حسنِ سادہ اوڑھ کر
شام زلفوں پہ تو رخ پہ رنگِ بادہ اوڑھ کر
مسکرانے کی فقط اک رسم باقی رہ گئی
دل تو کب کا سو چکا غم کا لبادہ اوڑھ کر
مسکرا کے کر چلا تُو کتنے وعدے تار تار
اور ماتم میں رہا میں ایک وعدہ اوڑھ کر
نیم شب میں جاگ کر وہ جانے کیوں رونے لگے
سو گئے جو ترکِ اُلفت کا ارادہ اوڑھ کر
جانِ منزل یاد رکھنا کون پیچھے رہ گیا
راہِ الفت میں تمہاری خاکِ جادہ اوڑھ کر
برف پڑتے ہی پھرا آنکھوں میں رنگِ حُسنِ یار
سرد راتوں کو بِتایا درد زیادہ اوڑھ کر
ترکِ الفت کا ارادہ اب رہا کس کام کا
دل تو باغی ہو گیا عزمِ اعادہ اوڑھ کر
گوشہ گیری کا مزا ہے بال ِعنقا کی قسم
بس جنونِ عشق کا دشتِ کشادہ اوڑھ کر
کیسے طاہر ؔ پھر نہ آتا یاد وہ ماہِ تمام
ظلمتِ شب سو چکی تھی چاند آدھا اوڑھ کر

ڈاکٹر تنویرطاہرؔ
گھاسی یار حول، سرینگر
موبائل نمبر؛70068048841

عشق کر بیٹھے سیانا کیا کئے
کوئی بتلادے خدارا کیا کئے
اُن کو دیکھا دیکھتا ہی رہ گیا
خود کو دیکھ آئینہ توڑا کیاکئے
دل نہیں لگتا کسی صورت کہیں
تیری اُلفت کی تمنا کیا کئے
رات بھر جاگے دعاء فریاد کی
تجھ کو پانے کے لئے کیا کیا کئے
عارض ولب، چشم و گیسو یار کے
دستِ قدرت نے تراشا کیا کئے
ہے جان لیوا خامشی جسکی سزا
اے چارہ گر ہم جرم ایسا کیا کئے
لوحِ دل پر خونچکاں تحریر سے
نا م اُنکا ہے مٹایا کیا کئے
جب سے کی منسوب اُن سے وہ غزل
مرزا منیبؔ حشر برپا کیا کئے

مراز ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام
موبائل نمبر؛9906486481