غزلیات

پہلے قیاس صورت حالات کیجئے
پھر پیش اپنے اپنے خیالات کیجئے
اونچے سروں کا شور شرابا قدیم ہے
ہلکے سروں میں اپنی نئی بات کیجئے
باہر نہ آئیے کبھی سرحد سے خلق کی
فطرت کے دائرے میں ہر اک بات کیجئے
ہم منتظر ہیں آنکھ کا کاسہ لئے ہوئے
اپنی نگاہ اُٹھائیے خیرات کیجئے
دہلیزِ شب پہ شمع جلا دیجئے کبھی
اس دورِ تیرگی میں کرامات کیجئے
سچائی جو ہے آپ کی باتوں میں دوستو
نظریں اٹھائیے تو ملاقات کیجئے
عادلؔ شبِ فراق کی بھی کیا حیات تھی
اب زندگی کی پھر سے شروعات کیجئے

اشرف عادل ؔ
الٰہی باغ سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315

نقشِ کہن کو کیسے نقشِ زمیں کیا
مغرب میں جا کے خود کو زیرِ نگیں کیا

دیوانہ کہہ رہا ہے ظالم زمانہ کیوں
حق النفس کو میں نے نصرت قریں کیا

بے آسرا نہیں ہوں پروردگار میں
میں نے تو خود کو تیرے در کا مکیں کیا

مڑ کر نگاہِ بسمل نے دیکھا نہیں مجھے
در پردہ گویا جیسے زیرِ زمیں کیا

یارانِ نکتہ داں میں کیوں کر شمار ہوں
شعر و سخن نے مجھ کو گوشہ گزیں کیا

کُنجِ قفس میں میں ہوں میرِ منش پڑا
ماتھے پہ اپنے لکھ کر لوحِ جبیں کیا

فکر و عمل کی یاورؔ دشوارِ زندگی
دعویٰ کو ایسے میں نے جانِ شریں کیا

یاورؔ احمد ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
[email protected]

کئے درد میں نے رقم کیسے کیسے
محبت میں جھیلے ہیں غم کیسے کیسے

یہ جو ناز ہے تم کو عِشوہ گری پر
ہوئے خاک میں اِنسان ضم کیسے کیسے

ہر ایک سے سُنا ہے فسانۂ محبت
نکلے جیسوں تیسوں کے دم کیسے کیسے

ملے بھیک یں جو وہ اُلفت نہیں ہے
ہوئے اس میں رسوا ہم کیسے کیسے

اللہ ھُوٗ اکبر کی جب گُونجی صدائیں
گِرے مُنہ کے بل صنم کیسے کیسے

تیری دلکشی پہ کبھی نازاں تھے مشتاقؔ
ڈھائے گئے یہاں سِتم کیسے کیسے

خوشنویس میر مشتاق
ایسو ( اننت ناگ)
[email protected]

زخم سینے کے ہم نہیں دکھایا کرتے ہیں
چاک جگر ہو تو ہم خود ہی سیا کرتے ہیں
خُدا روز ہمیں صداقت کی طرف بُلاتا ہیں
اور ہم ہیں کہ سایہ کُفر میں جیا کرتے ہیں
استبداد سے یہاں اتنا اندھیرا پھیلا ہے کہ
ہم تو روشنی کی کرن سے بھی ڈرا کرتے ہیں
رقیب نے میرا دامن کانٹوں سے بھر دیا ہیں
پھر بھی ہم محبت کی تجارت کیا کرتے ہیں
غم پنہاں ہم کسی کو نہیں بتایا کرتے ہیں
گلےشکوے ہم دل میں ہی دبایا کرتے ہیں
اس کی باتوں کو میں نے قید کر لیا ہیں
رات کی خلوت میں ہم انہیں سُنا کرتے ہیں
مسلسل اذیت نے مجھے اتنا خاموش کر دیا
ہم تو محفل میں بھی تنہا بیٹھا کرتے ہیں
مانا کہ تو سدا پردے میں ہی رہتا ہیں
پر ہم سجدوں میں آپکو دیکھا کرتے ہیں
کیا دو گز زمیں کوئے یار میں راشد ملے گی
شب و روز ہم بس یہی سوچا کرتے ہیں

راشد اشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105

دل کے پھپھولے گر میں دکھائوں تو رو پڑوگے
داغ جگر کے اگر گِنائوں تو رو پڑوگے

کھائے ہیں کتنے زخم تیرے عشق میں اے یار
اُنکی اگر فہرست بنائوں تو رو پڑوگے

وعدے کئے بہت ہیں پر وفاء نہیں کئے
جب حال اُنکا تم کو سنائوں تو رو پڑوگے

تاحال میں نے عشق میں رسمِ وفا نبھائی
گر آج کسی کا میں ہوجائوں تو روپڑوگے

چُپ سادھ لی ہے مصلحتاً نیّرؔ نے آج دیکھ
لب پہ جو حرفِ شکایت لائوں تو رو پڑوگے

غلام نبی نیّرؔ
کولگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9596047612

دل کے پھپھولے گر میں دکھائوں تو رو پڑوگے
داغ جگر کے اگر گِنائوں تو رو پڑوگے

کھائے ہیں کتنے زخم تیرے عشق میں اے یار
اُنکی اگر فہرست بنائوں تو رو پڑوگے

وعدے کئے بہت ہیں پر وفاء نہیں کئے
جب حال اُنکا تم کو سنائوں تو رو پڑوگے

تاحال میں نے عشق میں رسمِ وفا نبھائی
گر آج کسی کا میں ہوجائوں تو روپڑوگے

چُپ سادھ لی ہے مصلحتاً نیّرؔ نے آج دیکھ
لب پہ جو حرفِ شکایت لائوں تو رو پڑوگے

غلام نبی نیّرؔ
کولگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9596047612

پرواز اب کر جائے گا یہ یاد رکھ
یہ وقت بھی گزر جائے گا یہ یاد رکھ

ہم تو نہیں ہوں گے کوئی اور ہی صحیح
جو اب بے فکر شہر جائے گا یہ یاد رکھ

یہ ظلم تو مٹے گا اک دن یہاں پہ دیکھ
ظالم تو خود ہی مر جائے گا یہ یاد رکھ

پھر آئے گا خوشی کا موسم یہ دیکھ لو
ہر زخم ہی تو بھر جائے گا یہ یاد رکھ

طلحہ کی یہ غزل بھی لکھ جائے گی ضرور
تاریخ کا ورق بھر جائے گا یاد رکھ

جنید رشید راتھر (طلحہ )
آونورہ شوپیان کشمیر
[email protected]

فرش و در و دیوار سے ڈر لگتا ہے
اب اس حصارِ نار سے ڈر لگتا ہے

جھکتے ہو پر آدابِ سجدہ تک نہیں
دل تجھ بتِ پندار سے ڈر لگتا ہے

بدلی ہے، جب سے رنگ، یہ بزمِ جہاں
مجھ کو گل و گلزار سے ڈر لگتا ہے

اک جان ہی تو ہے، وہ مقتل ہی مگر
کس کو دیارِ یار سے ڈر لگتا ہے

مجھ کو اے بادِ شام تو لے چل کہیں
اب اپنے ہی گھر بار سے ڈر لگتا ہے

یوں تو پتھر ہیں ہم مگر اے سنگ دل
معصوم چشمِ زار سے ڈر لگتا ہے

توصیف شہریار
اننت ناگ، کشمیر
[email protected]