غزلیات

نگاہیں جھیل تو چہرہ گلاب رکھتا ہے
وہ کمسنی میں بھی کتنا شباب رکھتا ہے
بڑا غرور، بڑا ہی رباب رکھتا ہے
وجود اپنا جو مثلِ حباب رکھتا ہے
کہیں دکھائی نہیں دیتا وہ مجھے لیکن
ہر ایک بات کا میری حساب رکھتا ہے
ہے جس کے پاس بہت زر، زمین، زن یارو
جہاں بھی اس کو ہی عزت مآب رکھتا ہے
اسی نے خار بچھائے تھے میری راہوں میں
جو آج قبر پہ آکر گلاب رکھتا ہے
جسے بھی دیکھ لے اک بار وہ بہک جائے
نظر میں اپنی وہ ایسی شراب رکھتا ہے
بلائیں دور ہی رہتی ہیں اسکے در سے رفیقؔ
جو اپنے گھر میں خدا کی کتاب رکھتا ہے

رفیق عثمانی ؔ
آکولہ، مہاراشٹرا
[email protected]>

مختصر سی زندگی میں کیا جُٹا پایا ہوں میں
ڈھیر سارے خواب بس دل میں سجا پایا ہوں میں
اپنی گزری زندگی میں کام اچھے بھی کئے
پر برائی سے نہیں خود کو بچا پایا ہوں میں
موت دستک دے رہی ہے آ کے اب نزدیک تر
رابطہ رب سے نہ اب تک بھی بنا پایا ہوں میں
سوچتا تھا دائمی ہیں سب یہاں عیش و طرب
پر جہاں کو آخرش اس سے جدا پایا ہوں میں
بڑھ گئی احساں فراموشی کی بیماری مگر
عیب یہ کم ظرف میں ہی تو سدا پایا ہوں میں
سج رہی ہے جا بجا اب محفلِ رقص و سرور
پھر بھی لمحہ بھر سکون و چین کیا پایا ہوں میں؟
ہے جہاں سے تجھ کو نفرت ہو گئی شادابؔ کیوں
تُو تو کہتا تھا جہاں کو دلرُبا پایا ہوں میں

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ (کشتواڑ)
موبائل نمبر؛ 9103196850

زندگی نے مشکلوں کے تیر مارے ہیں بہت
حوصلے لیکن بلندی پر ہمارے ہیں بہت
گو کہ تو نے دشمنی کی حد نہیں چھوڑی کوئی
ہم نے تیری چاہتوں پر خواب وارے ہیں بہت
ساتھ میرا چھوڑ کر تم شادماں ہو بے حساب
ہم مگر مغموم جاناں بِن تمہارے ہیں بہت
لوگ جن کا نام سن کر چونک پڑتے ہیں میاں
زندگی میں ہم نے ایسے دن گزارے ہیں بہت
مجھ کو ہر اک آدمی سے یوں محبت ہے مگر
جو بھی اُردو بولتے ہیں، وہ پیارے ہیں بہت
بات کرنے کی یہ زحمت تم گوارا کیوں کرو
تیری آنکھوں کے پری وش، بس اشارے ہیں بہت
تیرے قد کا تو مجھے کوئی نظر آتا نہیں
اونچے اونچے شہر میں یوں تو منارے ہیں بہت
آپ سا ممتازؔ احمق دوسرا کوئی نہیں
“تھوڑی چادر ہے مگر پاؤں پسارے ہیں بہت”

ممتاز احمد ممتازؔ
راجوری، جموں وکشمیر
موبائل نمبر؛7051363499

زندگی بھر کی دعاؤں کا ثمر تھا جو گیا
شوقِ منزل کی قسم جانِ سفر تھا جو گیا
دل شکستہ ہیں چمن میں سبھی یارانِ چمن
درد کی دھوپ میں راحت کا شجر تھا جو گیا
طاق میں شمعِ شبِ ہجر نے رو کر یہ کہا
ظلمتِ بختِ پریشاں کی سحر تھا جو گیا
شاہِ کنعاں ترا یوسف کبھی پھر دور نہ ہو
میرا بھی چاند سا منظور نظر تھا جو گیا
اب تو سیپارہ ہوا جاتا ہے یادوں سے جگر
زہرِ فرقت وہ مرا جان جگر تھا جو گیا
ایک مدّت سے کہاں دستِ دعا اٹھتے ہیں
اس کے ہونے سے دعاؤں میں اثر تھا جو گیا
اب کے اشکوں کا وہ ریلا مری آنکھوں سے بہا
زیر تعمیر ہی خوابوں کا نگر تھا جو گیا
بلبلِ بخت زدہ برقِ جدائی کی قسم
وقت کی شاخ پہ امید کا گھر تھا جو گیا
آ بلے چوم لئے تشنہ دہن کانٹوں نے
دشتِ بے آب کے حالات کا ڈر تھا جو گیا
اس کے بجھتے ہی بجھی آخری امّیدِ بقا
میری خاکسترِ دل میں وہ شرر تھا جو گیا
دلِ طاہرؔ کی طرف سے ترے زرّوں کو سلام
کوچۂ یار کوئی خاک بسر تھا جو گیا

ڈاکٹر تنویرطاہر
گھاسی یار حول، سرینگر
موبائل نمبر؛70068048841

تمہارے بعد کیا ہوا، میں جی گیا مرا نہیں
تمہارے بعد تو مگر کسی سے دل لگا نہیں
تمہارے بعد عشق پہ یقیں نہیں رہا میرا
تمہارے بعد باوفا مجھے کوئی ملا نہیں
تمہارے بعد زندگی نے رنگ ہی بدل دیا
تمہارے بعد مہرباں کوئی میرا رہا نہیں
تمہارے بعد تلخیاں مجھے سرے سے کھا گئیں
تمہارے بعد تو سکوں کہیں مجھے ملا نہیں
تمہارے بعد خود سے ہی لپٹ کے میں نے رو دیا
تمہارے بعد حوصلہ کسی نے بھی دیا نہیں
تمہارے بعد دن ڈھلا نہ رات رونما ہوئی
تمہارے بعد وقت بھی میرے لئے رُکا نہیں
تمہارے بعد بے قیام ہو گئی مری زمیں
تمہارے بعد آسماں میرے لئے جُھکا نہیں نہیں
تمہارے بعد آشیاں کے سب چراغ بھج گئے
تمہارے بعد پھر کوئی دیا کبھی جلا نہیں
تمہارے بعد یہ چمن تو ویسا ہی ہے ہاں مگر
تمہارے بعد پھول پھر یہاں کوئی کھلا نہیں
تمہارے بعد موسیقی بے سُری سی ہو گئی
تمہارے بعد میں نے کوئی گیت بھی سنا نہیں
تمہارے بعد بے اثر طبیب سارے ہوگئے
تمہارے بعد با اثر دعا نہیں، دوا نہیں
تمہارے بعد وہ عقیلؔ چھوڑ کر گیا مجھے
تمہارے بعد کون ہوں میں یہ بھی اب پتا نہیں

عقیلؔ فاروق
بنہ بازار شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006542670

تیری یادیں میرے دل پر ہوگئیں نازِل کبھی
موت آساں ہوگئی زندگی مشکل کبھی
ہے رواں یا ہے گِراں تجھ سے میری سانس یہ
کیوں سُلجھ جاتی نہیں یہ اُلجھنِ واصل کبھی
بن کے اب مجذوب و مجنوں رہ گیا ہے ہائے کیوں
دِل ہوا کرتا تھا میرا مُرشدِ کامِل کبھی
کیسے تیرا غم سجایا نم زدّہ اس آنکھ میں
دیکھ لے ہوکے مرے اس ہجر میں شامل کبھی
تم نے جھیلوں کا ترنُم عمر بھر دیکھا صنم
تم نے دیکھا ہی نہیں ہے شام کا ساحل کبھی
مل گئی ہر بار ہم کو دردِ دل کی اک دوا
پر سکونِ قلب ہم کو نا ہوا حاصل کبھی
کب غمِ دل سے مجھے فرصت ملی ہے دو گھڑی
میں رہوں اپنے ہی دل سے اب خَلِشؔ غافل کبھی

خَلِش
لارم اسلام آباد کشمیر
<[email protected]

 

 

خواب کا اک جہان دے جاؤں
زندگی کو مکان دے جاؤں
شیشۂ دل میں عکس اُتار مِرا
اور کیا اب نشان دے جاؤں
ہے نوا اُس کی کس قدر دلکش
اس کو اردو زبان دے جاؤں
وقتِ رخصت اُمیدِ فردا رکھ
پھر تجھےخوش گمان دے جاؤں
چشمِ نو، خواب سب نئے دیکھے
ایسا اک آسمان دے جاؤں

جبیں نازاں
نئی دلی
[email protected]

زر ہے تیرا نہ مال ہے تیرا
بس شکم کا اُبال ہے تیرا

پیر تیرے زمیں پہ جمتے نہیں
تیرے سر پر زوال ہے تیرا

کتنا آسودہ تھا تیرا ماضی
کیوں پریشان حال ہے تیرا

چہرہ بے رنگ و بے حیا، بے نور
کیا یہ حُسن و خیال ہے تیرا

میوں رہوں کوئی دوسرا نہ رہے
کتنا اُوچھا خیال ہے تیرا

شام واقعی لہو لہو ہوجائے
یہ بھی تو اِک کمال ہے تیرا

پیار کی کوئی حد نہیں ہادیؔ
ساری دُنیا عیال ہے تیرا

حیدر علی ہادیؔ
آستان عالیہ زیارت بتہ مالو،سرینگر
موبائل نمبر؛9797554452

جب کسی جنت سے نکل گئے
اپنے روؤں پر خاک مل گئے
عکس بے خودی کے کبھی کبھی
صورتِ خودی میں ہی ڈھل گئے
رات بجھ گئی چاند بجھ گیا
آنکھیں جل گئیں خواب جل گئے
اسکی اک نگاہِ مہر سے سب
ہجر کے وہ اندیشے ٹل گئے
جن پہ ناز تھا کچھ امید تھی
چہرے سب وہ اک دن بدل گئے
جو کنارے پر تھے بکھر گئے
جو سمندر اُترے سنبھل گئے
ویسے جانا ہے اس بلا کبھی
آج جو نہیں تو وہ کل گئے
دیکھ کر رخِ ماہتاب کچھ
دل کے ارماں آخر بہل گئے
کتنے راتیں کھوئی فراق میں
کتنے دن اندھیروں میں ڈھل گئے

توصیف شہریار
اننت ناگ
موبائل نمبر؛7780895105

کچھ نہیں تو اتنا ضرور کر جاؤں گا
زندگی گزارتے گزارتے مر جاؤں گا
یہی سوچ کے پھراِدھر کا بھی نہ رہا
لوگ کیا کہیں گے اگر اُدھر جاؤں گا
در و دیوار کی قید میں مبتلا ہوں
کھبی رہائی ملے تو گھر جاؤں گا
سراپا آنسوں ہوں، محبت میں مجھے
آنکھوں میں سنبھال ورنہ گِر جاؤں گا
تم نے جاتے ہوئے مُڑ کے کیوں دیکھا
تمہیں معلوم تھاکہ میں بکھر جاؤں گا
اب تو تنہائی کا وہ عالم ہے برکتؔ
کہ اپنے ہی سایہ سے ڈر جاؤں گا

برکت علی برکتؔ
بوٹہ کدل ، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛8825006816

بہت ہوا! اب جانب کوچۂ جاناں چلا
زمیں چھوڑ مجھ کو، میں تو سُوئے آسماں چلا

میری تمنا ہی فقط میرے ساتھ ساتھ ہے
میں اپنے ساتھ لے کے زمیں اور نہ آسماں چلا

ہر قدم پر خار بچھے تھے کہ جیسے پھول تھے
اُس چمن کی وسعتوں میں، میں جہاں جہاں چلا

دیئے ہیں تُو نے ساری عمر مجھ کو جوائے زندگی
ساتھ لئے اب وہی زخم ہائے جہاں چلا

جوڑا تھا جسکو چائو سے صورتؔ جہانِ دل میں تو
وہ رشتۂ اُمید اب تُو توڑ کے کہاں چلا

صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549