غزلیات

نفع نقصاں کے اُصولوں سے بغاوت کی ہے
ہم نے اس شہر میں اِک طُرفہ تجارت کی ہے
کہاں باقی رہی رِشتوں میں محبت کی نمی
دل پہ برپا یہاں اپنوں نے قیامت کی ہے
کیوں نہ محفوظ بلاؤں سے رہے گھر میرا
میں نے اس گھرمیں برسوں سے تِلاوت کی ہے
دُور شہروں میں کہاں پاؤگے نیندیں یارو
غمزدہ رہتا ہے وہ، جس نے بھی ہجرت کی ہے
یہ الگ بات کہ پامال ہوئے جاتے ہیں
بات یہ کل کی ہے، ہم نے بھی حکومت کی ہے
بھائی سے بھائی لڑے،گولی چلے، خُون بہے
کسی دانا نے کہاں ایسی سیاست کی ہے
مصلحت کایہ تقاضا ہے کہ چُپ ہیں ورنہ
ہم نے برجستہ صداقت کی وکالت کی ہے
لوگ مر جاتے ہیں جنت کی طلب میں بسملؔ
پوچھو اُن سے کسی مسکیں سے محبت کی ہے

خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی راجوری، جموں
موبائل نمبر؛9622045323

جب یاد کبھی تم آتے ہو دلدار خزاں کے موسم میں
جذبات میرے بھڑکاتے ہو دلدار،خزاں کے موسم میں
جب چاپ تمہارے قدموں کی ان کانوں سے ٹکراتی ہے
یہ دھڑکن اور بڑھاتے ہو دلدار خزاں کے موسم میں
کنگن، گجرا ،کاجل، بندیا، پائل بھی نہ اب تک لائے تم
وعدوں سے فقط بہلاتے ہو دلدار خزاں کے موسم میں
زلفوں کو ہٹا کر چہرے سے رُخسار پہ وہ بوسہ دینا
کیوں مجھ کو یاد دلا تے ہو دلدار خزاں کے موسم میں
جب زرد چناروں کے پتے آغوش میں میری گرتے ہیں
بے ساختہ تم تڑ پا تے ہو دلدار خزاں کے موسم میں
اس عشق حقیقی میں پڑ کر جب یار کا دامن تھام لیا
پھر کاہے کو گھبراتے ہو دلدار خزاں کے موسم میں
ہر انگ سُلگتا ہے میرا چھوتے ہو تصور میں جس دم
یہ کون سی آگ لگاتے ہو دلدار خزاں کے موسم میں
آنکھوں میں چھپی تصویر تری بھی دھندلی ہوتی جائے ہے
اک بار ہی آکر مل جا تے دلدار خزاں کے موسم میں
اشعار مہک اُٹھتے ہیں مرے حرفوں میں نزاکت آتی ہے
انداز سے جب مسکاتے ہو دلدار خزاں کے موسم میں

پرویز مانوس
نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142

اس ذہن کو نچوڑ کے بے جان کر گیا
کس کا خیال تم کو پریشان کر گیا
مشکور ہوں کہ تیرا دلاسہ اے میرے یار
مشکل حیات کو مری آسان کر گیا
مجھ سے یہ کس کے عشق نے غزلیں لکھائی ہیں
یہ کون مجھ کو صاحبِ دیوان کر گیا
اپنی عظیم ذات کی نسبت نواز کر
میرا شفیق خلق میں ذیشان کر گیا
اس کی جدائی کا مجھے بس اتنا غم ہوا
آباد تھا جہاں مرا ویران کر گیا
پہنا کے بے وفائی کو فنکاری کا لباس
میری وفاؤں کو وہ پشیمان کر گیا
آ کرکے میرے گھر میں کوئی جادو گر وجود
میرے ہی بیٹے کو مرا مہمان کر گیا
جن کے سہارے کٹ گئی آرام سے حیات
وہ ایسی یادگاریں مجھے دان کر گیا
کیا جانے اس کے لمس میں کیا جادو تھا “ذکی”
چھو کر مرے بدن کو جو گلدان کر گیا

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی
موبائل نمبر؛7007368108

خار سے گُل جدا نہیں ہوتا
رنگ کا حق ادا نہیں ہوتا
مسکرائے ہیں ہم بہت پہلے
حوصلہ اب ذرا نہیں ہوتا
منفرد سوچ سب کی ہوتی ہے
رنگ دل کا جدا نہیں ہوتا
آستینوں میں سانپ ہوتے ہیں
دشمنوں کا پتا نہیں ہوتا
بندگی اس کی ہے بڑی مشکل
حق خدا کا ادا نہیں ہوتا
ٹوٹنا دل کا کیا بتاؤں میں
یوں تو مثلِ صدا نہیں ہوتا
جب بھی کرتی ہوں یاد اللہ کو
لب پہ حرف دعا نہیں ہوتا
بارہا ٹوٹتا رہا پہلے
دل میں اب حادثہ نہیں ہوتا
ساریہؔ تم فلک سے ہی پوچھو
چاند سے دکھ جدا نہیں ہوتا

سکینہ ساریہ
حضرتبل سرینگر
[email protected]

ازل سے ملے ہم کو جب ہیں یہ غم
گلہ زندگی سے کریں کیسے ہم

ہم میں رہی ہے وہ طاقت کہاں
ہے یہ رازِ ماتم و درد و الم

چُھٹا دامنِ صبر، اب تُوبتا
کہاں جاؤں آخر میںاے ہمقدم

قسمت میں جب کچھ بھی تھا ہی نہیں
پھر کیا لکھیں ہم اُٹھا کے قلم

کہاں اب ہے ذرخیز اپنی زمیں
جو شب کو کبھی ہوتی تھی نم بہ نم

ہے کیا جستجو تیری طلحہؔ بتا
کہ ہوتے نہیں تیرے غم کم بہ کم

جنید رشید راتھر طلحہ ؔ
آونورہ شوپیان کشمیر
<[email protected]

دردِِپیہم سے میرا دلگیر ہونا
ہے غضب یہ موت کی تاخیر ہونا
آرزو کا ہائے دل میں قید ہونا
میرے دل کا خانۂ ِزنجیر ہونا
بے اثر چاہے دوا ہو جائے لیکن
ہے ضروری درد میں تاثیر ہونا
دیکھنے سے خواب کو ہوتا ہے کیا
ہے ضروری خواب کی تعبیر ہونا
ہے محبت کی ضرورت آج کل
آدمی کا قابلِ تدبیر ہونا
ہے محبت کا خلشؔ یہ عالی مقام
چشمِ تر میں درد کا تحریر ہونا

خلشؔ
لارم اسلام آباداننت ناگ
[email protected]

عجب رنگوں سے ہمیں سجاتی ہے زندگی
جواں سے ضعیف تر بناتی ہے زندگی
اگر راکھ ہو غرور پھر کیوں ہے آگ کا
تمہیں صبح دم سے پہلے بھاتی ہے زندگی
یہ رنگت، یہ جھریاں اور ہڈیوں کا ڈھانچہ
کہ حسن و جمال آزماتی ہے زندگی
نہ سامانِ عیش ہے نہ ہے سامانِ سفر
خوشی شادمانی پہ رُلاتی ہے زندگی
لڑکپن ، جوانی، پیری اور میں کیا کیا کہوں
اسی سیرِ گاہ میں سماتی ہے زندگی
پڑے بسترِ مرگ پہ جب کوئی زندہ لاش
انہیں دن میں تارے پھر دکھاتی ہے زندگی
جسے دیکھا رنگ ہی میں یاورؔ اُداس ہے
میاں رنگوں میں ہی رنگ جاتی ہے زندگی

یاورؔ احمد ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ راجوار، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160

اِک نظر تیری بنا سکتی ہے قسمت میری
تو اگر جان لے اے دوست محبت میری

اب کسی درد کا احساس نہیں ہوتا ہے
رنگ لائی ہے یہ عشق کی شدت میری

پی لیا زہر جو چاہت کا سنبھالوں کیسے
یا خدا آج گھٹالے عمر کی مدت میری

دھول سمجھا تجھے اے خاک بڑی بھول ہوئی
آج بانہوں میں چھپا لے تو میت میری

عمر بھر جن کیلئے سہتا رہا ہر درد سعیدؔ
اب وہ کرتے ہیں غیروں سے شکایت میری

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380

چھائی ہے جو برسوں سے گلشن میں اُداسی ہے
نیّت سے عیاں ہے وہ، کس خون کی پیاسی ہے

سوتے ہیں زمیں پر ہم سجدوں کی ہی حالت میں
یہ روح ہماری رب کی ہے متلاشی ہے

دم بھر کے وہ کہتے ہیں، ہم چاند سے ہو آئے
کیا کھیل، ہمیں معلوم، اُنکا یہ سیاسی ہے

باندھے ہے وہ پتھر، اُس پیٹ پہ جسکے لئے
ہر اور زمیں پر جو بیٹھاہے نجاشی ہے

دنیا ہے تشکر میں ترے کام سے اب اے سہیلؔ
ہر لفظ تمہارا تو حق کی ہی عکاس ہے

سہیل احمد
ڈوڑہ مرمت، جموں
[email protected]