غزلیات

ضمیرِ عصر حاضر ہوں نظر اُٹھا
میں عہدِ نو کا شاعر ہوں نظر اُٹھا
میں آفتاب ہوں لفظوں کی قید میں
کرن کرن میں ظاہر ہوں نظر اُٹھا
کتابِ زیست ہوں کہتا ہوں حالِ دل
ورق ورق میں حاضر ہوں نظر اُٹھا
تڑپ تڑپ کے لکھتا ہوں غزل غزل
میں یوں بہت ہی صابر ہوں نظر اُٹھا
ٹپک ٹپک کے ٹپکا ہی نہیں کبھی
ترے لئے میں وافر ہوں نظر اُٹھا
ترے ہنر سے دھوکہ کھا لیا سنو
میں اپنے فن میں ماہر ہوں نظر اُٹھا
مجھے نہ سوچ اپنا بھی بنا نہیں
میں دائرے سے باہر ہوں نظر اُٹھا

اشرف عادل ؔ
الٰہی باغ سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315

وہ میری زندگی ہے اور جاں ہے
نگاہوں سے مگر اب تک نہاں ہے
ترا ہی اس پہ ہر لمحہ بیاں ہے
مرے منھ میں یہ کیا تیری زباں ہے
جمالِ یار کا جادو تو دیکھو
اندھیری شب بھی میری ضو فشاں ہے
زمانہ ہو گیا ہے آئے ان کو
معطر آج تک میرا مکاں ہے
تمہیں شاید نہیں معلوم جاناں
تمہارے حسن سے حسنِ جہاں ہے
سکھاتا ہے جو ہم کو بے وفائی
یہ آخر کون اپنے درمیاں ہے
وہ جس کے بارے میں تم پوچھتے ہو
مجھے اس سے بہت ہی عشق ہاں ہے
فقط ہوں ہاں میں کیوں سمٹی ہیں باتیں
تمہارا دھیان آج آخر کہاں ہے
تمہارے حسن سے ہے عشق جنما
تمہاری ذات زیبِ داستاں ہے

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی
موبائل نمبر؛7007368108

اُن کی محفل میں میرے جتنے بھی نذرانے گئے
خونِ دل سے جو لکھے تھے وہ ہی افسانے گئے

وہ تو دیوانے ہیں لیکن کیا ہوا اُن کو بھلا
کس لئے اہلِ خرد اُن کو سمجھانے گئے

کون کہتا ہے کہ مانگا غیر سے ہم نے کبھی
کب تیرے در کے سوا دامن کو پھیلانے گئے

الجھنوں میں خود الجھ کر رہ گئے وہ بدنصیب
جو تیری اُلجھی ہوئی زُلفوں کو سلجھانے گئے

اس سے بڑھکر اور کیا ملتی ہمیں دادِ وفا
ہم تیرے ہی نام سے دنیا میں پہچانے گئے

کون سے مے کش ہیں ساقی ؔآج یہ جن کے لئے
خم گئے، شیشے گئے، لبریز پیمانے گئے

امداد ساقیؔ
لعل بازار، سرینگر
موبائل نمبر؛7780866097

عِشق دامن کی داغداری ہے
شرمساری ہے خاکساری ہے
اک بہانہ ہے شاعری کا خلش
بادہ خواروں کی بادہ خواری ہے
ہِجر کی آنچ پر سُنو میں نے
شبِ فُرقت صنم گزاری ہے
میں نے لِکھ لِکھ کے تری غزلوں سے
ہر بلا ہر نظر اُتاری ہے
تیری فُرقت میں آج تک میں نے
ہر نِشانی تری سنواری ہے
دل تو دل تھا تمہاری اُلفت میں
ہم نے غیرت بھی اپنی ہاری ہے
جب سے تم ہوگئے خفا ہم سے
کوئی وحشت سی دِل پہ طاری ہے
بے زُباں کر دیا زُباں کو خلِشؔ
بے قراری میں بُردباری ہے

خلشؔ
لارم اسلام آباد،کشمیر
[email protected]

عشق و عاشقی کی کہانی کب تک؟
برباد کریگا یہ جوانی کب تک؟

حباب سی زندگی ہے مسکالے جی بھرکے
آنکھوں سے بہاؤگے پانی کب تک؟

دل پہ درد اُٹھا ہے تیری یاد میں جان
یہ دل اُٹھائے گا پریشانی کب تک؟

کتابوں میں جو گلاب رکھ گئے تھے میرے
آپ کی رکھوں یہ نشانی کب تک؟

کچھ نیا انداز پیدا کر فیضيؔ تو
یہ غموں کی تحریر پرانی کب تک؟

محمد فیضان فیضی
بھیونڈی مہارشٹرا
موبائل نمبر؛7385851695

گھر ہے خالی سا مہمان کوئی تو ہو
جس سےبات ہو دل کی درمیاں کوئی تو ہو

بِکنے تو میں بھی چلا تھا بازارِ اُلفت میں
خریدار تو بہت ہے پر میرا قدرداں کوئی تو ہو

دوری منزل کی مسافت سے اے ڈرنے والوں!
طلب ہو جن کو منزل کی وہ کارواں کوئی تو ہو

بیر اپنوں سے ، غیروں سے شناسائی کیوں ؟
بھرم ہو جن کو رشتوں کا وہ انساں کوئی تو ہو

خالی ہاتھ ہی چلا تھا میں کوچۂ جاناں
اُس قاتل سے نِمٹنے کا ساماں کوئی تو ہو

دیکھا اُس نے بھی نہیں کبھی جی بھر کے مجھے
میں ہوں مشتاق دید جن کا میرا مہرباں کوئی تو ہو

خوشنویس میر مشتاق
ایسو (اننت ناگ)
[email protected]

میں نے غبارِ خاطر کی ہے حرام زیست!
گرنے میں میرے پھر کیوں اس نے اٹھائے ہاتھ
نعم البدل ہے میرا! کیسے کہوں انھیں؟
وہ چھوڑ کر گیا وائے! مسکرا کے ہاتھ
آتا ہے لوٹ کر وہ دنیا میں میری کیوں؟
سر راہ جس نے مارا دل پہ اُٹھا کے ہاتھ
اس انتظار میں تو سوکھا ہوں اس قدر
عمرِ دراز مانگوں، تسبیح تو آئے ہاتھ
دل کو قرار آیا اور روح کو سکون
“گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ”
دنیا بدل گئی اور راتیں حرام کیں!!!
اس نے جو مسکرا کے یاورؔ تھے چھوڑے ہاتھ

یاورؔ حبیب ڈار
احمد آباد بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

پری وہ، میں ہوں آدم زاد ، کہاں سے پیار ہوجائے
مٹی کا کھلونا کب فضا کے پار ہوجائے

توّکل سے بھرے دل کو تناقض ہو تو ایسا ہو
کہ دل کو اُ س کی پردہ داری پہ اقرار ہوجائے

تیغوں کے مشابہ ہے نگاہِ مرے ستمگر کی
اُ ٹھے پردہ تَرَقَب سے تو دل کے پار ہو جائے

لکھا اُ س نے جو میں نے التجا کی لب کشائی کی
کہ جب شمع کو پروانے پر اعتبار ہوجائے

اگر معصومؔ پر اُ ن کی شرائط ہیں تَرَقب کی
تو اُ ن کے دل سے محبت کا بھی تو اظہار ہوجائے

معصوؔم فرمان
طالب علم بی ایس سی آنرس
ہردہ شیوہ سوپور
موبائل نمبر؛ 6005809201

بن کر کبھی موسمِ بہار چلے آئو
زندگی میں میری پھر اِک بار چلے آئو

آنکھیں ہیں طلب گار تمہاری ہی دید کی
اور دِل ہے بے قرار، چلے آئو

تم کیا چلے گئے کہ بہاریں چلی گئیں
بن کر بہار پھر ایک بار چلے آئو

پھیکے ہیں تُم بن گلاب، چمیلی، سرسُوں
پھیکے تم بن ہیں لیل و نہار چلے آئو

گُلشن میں کتنی بہاریں آئیں، چلی گئیں
صورتؔ آئے نہ تم ایک بار چلے آئو

صورت سنگھؔ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9419364549

ہر درد کہانی کے حالات وہی جانے
دُنیا کے شگوفوں کی سوغات وہی جانے

کیا پایا ہے میں نے یاں،کچھ اور بھی پانا تھا
منظور ہمیں کیا ہے، عادات وہی جانے

ہیں مست یہاں یہ لوگ مستی میں ہی رہتے ہیں
مغرور ہیں یا مفرور خیالات وہی جانے

لہجوں کے تصرف کا کچھ علم نہیں مجھ کو
کِس سجدے میں دم ہے مرے ہر بات وہی جانے

صورت ہے کہ یا سیرت تو جھانک ذرا دل میں
بہتر ہے کون یہاں اوقات وہی جانے

کِھلتی ہوئی آنگن کی کلیوں سے میں کیا پوچھوں
فیاض مرے دل کے جذبات وہی جانے

فیاض کٹھانہ
کنگن گاندربل،موبائل نمبر؛9858110731
[email protected]