غزلیات

ہم سے تھا منسوب کوئی نام تیرے نام سا

نام اب وہ رہ گیا ہے شام کے الہام سا

 

آج لہجےمیں ترےشکوہ نہیں کچھ اور ہے

جو گِلہ تم نے کیا ہے وہ ہے اب الزام سا

 

 

ہوکے آتا ہے جِگر سے میرے دل تک آجکل

درد تیرا بن گیا ہے گردشِ ایام سا

 

بن نہ پایا رنج تیرا آنکھ کا آنسو کبھی

میرےجیسا غم بھی تیرا ہے غمِ  ناکام سا

 

کاغذوں پر ہے طوافِ آرزوئے دل رواں

زخم ِ دل نے آج پہنا ہے کوئی احرام سا

 

نام ور تھا جو خلشؔ اہلِ سخن  کے درمیاں

کس  کی خاطر  ہوگیا   ہے نام وہ گمنام سا

 

خلشؔ

لارم اسلام آباد

کشمیر،[email protected]

 

 

خوشی میں نگاہوں کو نم دیکھتے ہیں

کہ ہم دھوپ چھاوں بہم دیکھتے ہیں

لٹیرے یہاں تخت شاہی پہ مجرم

بھلے بے خطا سر قلم دیکھتے ہیں

ہنسی خواب میں بھی نہ ہونٹوں پہ پائی

مگر روز لاکھوں ستم دیکھتے ہیں

سمے کے حصاروں سے اک دن نکل کر

قدم سے ملا کر قدم دیکھتے ہیں

مروت صداقت کہاں ہے زمیں پر

نصابوں میں خالی رقم دیکھتے ہیں

نہ بادہ نہ شیشہ نہ خُم کی ہے حاجت

تمہاری نگاہیں صنم دیکھتے ہیں

بڑی آس عارفؔ کلی کو ہے لیکن

بہاروں کے آثار کم دیکھتے ہیں

 

جاوید عارفؔ

پہانو شوپیان کشمیر

موبائل نمبر؛7006800298

 

 

تر ی و یر ا ن آنکھوں میں ہے گہرا راز پوشیدہ

خموشی میں بھی تیری ہے عجب اک ساز پوشیدہ

یہ سنگ و خار صحرا دھوپ سب ہمزاد ہیں تیرے

سفر میں  ہی تیر ی منز ل کا ہے آ غا ز پوشیدہ

د کھا ئے گا تجھے ا فلا ک کی وہ رفعتیں لیکن

ارادوں میں ہے اُس کے ایک دھوکے باز پوشیدہ

صدا جس کی تھی تڑپاتی تصور میں مجھے اکثر

ہجو مِ شہر میں ہے ا ب و ہی آ و ا ز پوشید

حقارت سے نہ دیکھو تم مرے ٹوٹے ہوئے دل کو

اسی کھنڈر میں اب بھی ہے مری ممتاز پوشیدہ

اسے مت چھیڑ  پاگل جان کر،یہ راکھ کردےگا

فقیرِ شہر کے کا سہ میں ہے ا عجا ز پوشیدہ

جسے سب سنگدل کہتے رہے برسوں تلک ہم نے

اُسی اک جسم میں دیکھا دلِ گُدّاز پوشیدہ

ترے اسلوبِ کو ہی دیکھ کر سب لوگ کہتے ہیں

ترے اشعار میں ساحر کا ہے انداز پوشیدہ

زمانہ سنگ برسائے کبھی مانوسؔ مت ڈرنا

انہی میں ہے تمہارے واسطے اعزاز پوشیدہ

 

پرویز مانوس

نٹی پورہ سرینگر ،موبائل نمبر؛9622937142

 

 

وفا کا صلہ بے وفائی ہے صاحب

محبت میں آخر جدائی ہے صاحب

محبت کی وادی سے بچ کر نکلنا

اسی میں تمہاری بھلائی ہے صاحب

یہی کچھ گُماں تھا کہ جی نہ سکیں گے

تیرے ہاتھ میں کیا خدائی ہے صاحب

وہ وعدے وہ قسمیں چِھلاوا تھا سارا

صورت یہ کیسی دِکھائی ہے صاحب

گئی نیند ! حاصل کئے رت جگے ہیں

سزا ہم نے کیسی یہ پائی ہے صاحب

اسُی موڑ پر ہم ابھی بھی کھڑے ہیں

نہیں پِریت تم نے نِبھائی ہے صاحب

وہی چاند نکِلا مگر چاندنی کیوں

اپنے لہؤ میں نہائی ہے صاحب

خودی ہم کو پیاری کیسے یہ لکھِ دے

پلک تیری راہ میں بِچھائی ہے صاحب

فضاؤو میں اشکوں کی چھائی نمی ہے

میری یاد کیا تم کو آئی ہے صاحب؟

دیکھی ہے ہم نے محبت فلکؔ جی

دُہائی ہے صاحب دُہائی ہے صاحب

 

فلک ریاض

حسینی کالونی،چھتر گام کشمیر

موبائل نمبر؛6005513109

 

 

غافل رہے ہنوز تری بندگی سے ہم

محروم کیوں نہ ہوں طربِ زندگی سے ہم

 

روپوش ہو نہ جائیں کسی روز تھک کے ہم

’’ کب تک نبھائیں ایسے غلط آدمی سے ہم ”

 

پھر لے چلو مجھے جہانِ بے خبر میں تم

اب مر نہ جائیں  یار!غمِ آگہی سے ہم

 

جس طرح سانپ دیکھ کے ڈرجاتے لوگ ہیں

سہمے کبھی تو ڈرتے رہے آدمی سے ہم

 

تم نے کہا وفا کی ہے اک راہ خار دار

حیران ہوگئے اس کم ہمتی سے ہم

 

غم سے نڈھال ہو گئیں خوشیاں  مری تمام

اس درجہ بے رخی اسی بے رخی سے ہم

 

اب لاکھ دو صدائیں نہیں آئیں گے کبھی

نکلے نہیں ،نکالے گئے اس گلی سے ہم

 

رسوا مجھے وہ انجمن میں کر گیا جبیںؔ

اُف تک نہ منہ سے کہہ سکے آہستگی سے ہم

 

جبیںؔ نازاں

عبداللہ مسجد، لکشمی نگر، نئی دلی

[email protected]

 

ارے عاشقو ذرا میری بھی سن لو

میں آیا نہیں ہوں بلا یا گیا ہوں

 

نہ چا ہت تھی دل کو میرے اُن سے ملنا

اداؤں پہ اُن کی ملا یا گیا ہوں

 

میرا دل تھا پا گل محبت میں اُن کی

میں پا گل نہیں تھا بنا یا گیا ہو ں

 

جو پو چھا کسی نے کہ غم خوار کیوں ہو

تو دل نے کہا میں ستا یا گیا ہوں

 

کہ خوابوں کی دنیا میں پا یا تھا اس کو

میں عا شق ؔ تیرا ہوکر پو کا را گیاہو ں

 

محمد عارف عاشقؔ

دارالہدی، بہار

[email protected]

 

 

ان طویل راتوں کا غم ہونا کیا ہوا

پھر ان آنکھوں کا نم ہونا کیا ہوا

تمہاری خواہش تمہاری ہی رہی

پھر خواہشوں کا دم قدم ہونا کیا ہوا

وہ نبھاتے ہی چلے گئے زندگی کو

پھر وفا کا یوں کم ہونا کیا ہوا

باتیں تمہاری کیونکر رفاقت پذیر نہیں

پھر رابطہ یوں ختم ہونا کیا ہوا

راہِ عشق میں خود ہی مات کھا بیٹھے

تمہارا جشن سرِ بزم ہونا کیا ہوا

اہلِ ستم بھی شائق ؔکس قدر ظلم ڈھاتے ہیں

پھر یوں وصالِ صنم ہونا کیا ہوا

 

شائق فاروق وانٹ

بونجواہ کشتواڑ، جموں

موبائل نمبر؛9682606807

 

 

فن ہے تیرا عذاب سے ڈرانے کا

من بنالیا جو تیر اب چلانے کا

زندگی کے سفر کا ارماں ہے

خاکِ منزل کو خاک میں ملانے کا

تیرگی جب ہر سمت پھیل جائےتو

روشنی ہے عوض لہو جلانے کا

اب تو بہتر ہے سادھ لے چُپ تو

کیا ملے گا یہ داستان سُنانے کا

بُجھتے اُمید کے چراغ ہوئے روشن

یہ عوض ہے خودی کو آزمانے کا

کوئی رہبر ملیگا جو راہ میں

موقع مل جائے دل لگانے کا

میرے ارماں کا پھول جب کِھل اُٹھے

ہے رقیب کا ارماں اس سے قبر سجانے کا

اس سناٹے میں خود سے ہی کرو فریاد

فائدہ کیا ہے شکوہ دل میں دبانے کا

راشدؔ ہے تو ایسی بستی کا جہاں

سب کو ہنر ہے اپنی اصلیت چھپانے کا

 

راشد اشرف

کرالہ پورہ، چاڈورہ

موبائل نمبر؛9622667105