غزلیات

صبح کانٹوں پہ شام کانٹوں پر
عمر گزری تمام کانٹوں پر
میرے اپنے قلم نے چُپکے سے
لکھ دیا میرا نام کانٹوں پر
تیری کِرنیں بھی رقص کرتی ہیں
روز ماہِ تمام کانٹوں پر
رنگ اور بُوئے گُل کے عاشق سب
کون بھیجے سلام کانٹوں پر
روز شبنم سے غُسل کرتے ہیں
ہے گُلوں کا حمام کانٹوں پر
اِبتدائے حیات پُھولوں سے
اور اِختتام کانٹوں پر
ایسی مستی کہ تتلیاں، بھنورے
ہوگئے ہم کلام کانٹوں پر
حُسن کی ہر ادا گُلوں پر ہے
عشق کا احتشام کانٹوں پر
شاخِ گُل پر قفس ہے پنچھیؔ کا
اور شیریں طُعام کانٹوں پر

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ، کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

بھیگ گئی اک شوخ جوانی بارش میں
کر بیٹھی کیسی نادانی بارش میں
آگ اگر اُس شوخ بدن نے بھڑکائی
بن جائے گی ایک کہانی بارش میں
جانے اُس نے گھول دیا کیا بوندوں میں
آج بنی ہے شام سہانی بارش میں
ایک عجب ہے خوشبو پھیلی ہر جانب
سیر کو نکلی رات کی رانی بارش میں
بیٹھی ہے سج دھج کے وہ جو شکارے میں
جھوم اُٹھا ہے جھیل کا پانی بارش میں
دھوپ میں لفظوں نے جتنے بھی کھوئے تھے
ڈھونڈ رہا ہوں میں وہ معانی بارش میں
تشنہ دہن جو کل تک تھا اِس دنیا میں
آج ہوا ہے پانی پانی بارش میں
لوگ تو موبائل سے چمٹے بیٹھے ہیں
کون کرے گا اب من مانی بارش میں
اُس سے تعلق پھر سے زندہ ہو جائے
کاش کہ آئے دل کا جانی بارش میں

پرویز مانوس ؔ
نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142

کیسی مجال میری تم سے ملال رکھتا
ہو جاؤ تم پشیماں کیوں وہ سوال رکھتا

میں اپنا روئے خستہ کیونکر نِڈھال رکھتا؟
بے حال اپنے دِل کی حالت بحال رکھتا

کرتا اگر وہ اپنے وعدوں کی پاسداری
اُسکی رضا کی خاطِر میں ضبطِ محال رکھتا

وہ میرے حالِ غم کا اتنا خیال رکھتا
اس میری چشمِ نم پہ چشمِ غزال رکھتا

رکھتا ہے جو عداوت خنجر ہی مجھ پہ رکھتا
کیونکر میں آج تک یہ جانِ وبال رکھتا

ہوتا سخن وروں میں اپنا بھی نام شامل
گر اِبتداء سے اپنی غزلیں سنبھال رکھتا

ہوتا اگر یہ ممکن خنجر خلشؔ اُٹھاکے
ہر شام اپنے سینے سے دل کو نکال رکھتا

خلشؔ لارم
اسلام آباد کشمیر
[email protected]

بے درد کیا پھر سے وه عنایت هوگی
که سِتم تیرے اور میری شکایت هوگی

حرفِ مدُعا زبان پر آهی گیا هے
وه سمجھے میری بات تو بات هوگی

اوقات دِکھا هی دی دل توڑ کے ظالم نے
اِس فن میں بھی شاید اُس کو مهارت هوگی

بدلی رُتوں کے مثل وه بھی بدلے بدلے سے هیں
چھوڑ کے بھول جانا بھی اُن کی فطرت هوگی

مثلِ اَسلاف صفت میں خوب تر کر دے
هو عزٌم پخته زنده پھر سے وه غیرت هوگی

تعلق هی بنا ڈالاغموں سے میں نے مشتاقؔ
هے عجب کیا ، کب اِن کی ضرورت هو گی

خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو،اننت ناگ
[email protected]

جان میری تو مِرا محبوب ہے
جان دوں تجھ پر تو کیِا ہی خوب ہے

عشق کرتے ہیں جوانی میں سبھی
موج میں ساحل بھی جاتا ڈوب ہے

ہو گئی آنکھوںمیں ہر اِک بات ہے
ؓٓکون لکھتا آج کل مکتو ب ہے

عشق کو کہتا عبادت ہے اِگر
ہو گیا ،تو کیوں ہُوا ، محجُوب ہے

ہو رہا ہے ہر طرف چرچہ یہی
اب منیؔ بھی ڈھونڈتا محبوب ہے

ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
بھدرواہ، جموں
موبائل نمبر؛9906397577

مہمان نہ کوئی اپنا نہ میرا آشیاں ہے
بیزار مجھ سے ساقی، ناراض آسماں ہے

شبِ غم گزارنے کا یہ آسرا بہت ہے
تاروں کو دیکھتا ہوں گو چاند درمیاں ہے

پہچانتا نہیں اب کوئی گلاب مجھ کو
کانٹوں پہ میرے خوں کا باقی ابھی نشاں ہے

چَھل کررہا ہے رہبر، لُٹتا یہاں بشر ہے
بوتا ہے زہر مالی بھنورا ہی بے زبان ہے

کاٹی ہے عمر ساری آہ و فغاں میں سعیدؔ
آیا ہے وقتِ آخر، اب تو وہ مہرباں ہے

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906355293

بھلا سوچئے یا بُرا سوچئے
ارے کچھ تو یاورؔ جیا سوچئے
کہاں جائیں کس سے کہیں دل کا واد
عدو کو ہی اپنا نباہ سوچئے
چراغِ تہ داماں لیے اب تلک
دلیلِ سحر کی سرا سوچئے
یہ آندھی کا کوّا ہے مفلوج کیوں؟
ذرا سوچئے کچھ ذرا سوچئے
گل و بلبل و شوقِ مستی جنوں
حیاتِ جریدہ کی آ سوچئے
اٹھی گر نگاہیں ذرا سی کہیں
سرِ در گریبان وا سوچئے
سُکانِ زمیں کے اے پروردگار
کہ مرغِ شب و روز کا سوچئے
ملا خاک میں آدم و زن وجود
سرائے جزا کی ذرا سوچئے

یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
☜ موبائل نمبر؛6005929160

اُن طویل راتوں کا غم ہونا کیا ہوا
پھر ان آنکھوں کا نم ہونا کیا ہوا

تمہاری خواہش تمہاری ہی رہی
پھر خواہشوں کا دم قدم ہونا کیا ہوا

وہ نبھاتے ہی چلے گئے زندگی کو
پھر وفا کا یوں کم ہونا کیا ہوا

باتیں تمہاری کیونکر رفاقت پذیر نہیں
پھر رابطہ یوں ختم ہونا کیا ہوا

راہِ عشق میں خود ہی مات کھا بیٹھے
تمہارا جشن سرِ بزم ہونا کیا ہوا

اہلِ ستم بھی شائقؔ کس قدر ظلم ڈھاتے ہیں
پھر یوں وصالِ صنم ہونا کیا ہوا

شائق فاروق وانٹ
بنجواہ، کشتواڑ
موبائل نمبر؛9682606807