غزلیات

مرے گھر سے اندھیروں کی نگہبانی نہیں جاتی
کسی صورت مرے دل سے پریشانی نہیں جاتی
تُمہی مجھ پر کوئی احسان کر دو خود چلے آئو
کہ مُجھ سے خاک صحرا کی تو اب چھانی نہیں جاتی
جہاں ظالم حکمراں ہوں جہاں انصاف بِکتا ہو
وہاں مظلوم کی فریاد بھی مانی نہیں جاتی
جو لوٹ آئو تو ممکن ہے کہ پھر یہ شہر بس جائے
گئے ہو چھوڑ کر جب سے بیابانی نہیں جاتی
غُبارِ زندگی میں اسقدر دھندلا گئیں آنکھیں
کہ مُجھ سے اب کوئی تصویر پہچانی نہیں جاتی
سرِ اجلاس تیرے حق میں بولوں بھی تو کیا حاصل
یہاں اہلِ جنوں کی بات بھی مانی نہیں جاتی
چلے جائو گے آخر چھوڑ کر جاویدؔ مسند کو
کسی کے ساتھ دُنیا سے تو سُلطانی نہیں جاتی

سردار جاوید خان
مینڈھرپونچھ
موبائل نمبر؛9419175198

تیرا وصال ہے ، میں ہوں اور ملال ہے
اے زندگی ! ترا ہر لمحہ کمال ہے

کہنے کو زندگی تو میری ہی ہے مگر
مجھ سے زیادہ مجھ کو تیرا خیال ہے

دل کہہ رہا ہے ہر پل ہر لمحہ بار بار
تو ہی جوابِ ہر اک مشکل سوال ہے

یوں لگ رہا ہے اے دل! تیرے بنا مرا
جینا وبال ہے اور مرنا محال ہے

حجرہ یہ جو مقفل ہے اس لئے یہ کہ یاں
ان کے رخِ حسیں کے ابرو کا بال ہے

چہرے پہ میرے رونق پہلے سے بڑھ گئی
دن رات انکی فکر کا تحفہ کمال ہے

ملتا نہیں ہوں راہی ؔہاتھ اب کسی سے میں
مل کر گئے وہ جب سے تب سے یہ حال ہے

شیخ سیف اللہ راہی
پنگنور، ندھرا پردیش
موبائل نمبر؛9491432393

نام جب بھی مرا سُنا ہوگا
ہاتھ اس نے بہت مِلا ہوگا

بجھ نہ پائے گا آندھیوں سے کبھی
حوصلہ مند، جو دِیا ہوگا

کہہ دیا گر خلاف قاتل کے
جان جائے گی اور کیا ہوگا

روز مرتا ہوں روز جیتا ہوں
ایسا کب تک مرے خدا ہوگا

آج مل لو، وگرنہ کل میرا
نام ہوگا نہ کچھ پتہ ہوگا

آگ جس نے لگائی بستی میں
چند سِکوں میں وہ بِکا ہوگا

وہ تو مل کر رہے گا تجھ کو رفیقؔ
جو بھی تقدیر میں لکھا ہوگا

رفیقؔ عثمانی
آکولہ، مہاراشٹرا
[email protected]

جھول کر بادِ صبا ،کیا رُت سُہانی دے گئی
رنج و غم لے کر مُجھے پھر شادمانی دے گئی

نفرتوں کی آگ نے سب کُچھ جلا کر رکھ دیا
کیسی چنگاری اُڑی شعلہ فشانی دے گئی

کیا نہیں دیتا اگر وہ دینا چاہے ذولجلال
اُس کی رحمت تو زلیخا کو جوانی دے گئی

ہر گُماں اک واہمے میں ڈھل گیا ہے با خُدا
خوش گُمانی،کیا گُماں کی بد گُمانی دے گئی

ٹُوٹتے ،بنتے،بکھرتے ،دائروں کے روپ میں
وہ مُجھے الفاظ میں بکھری کہانی دے گئی

چاند راتوں کی روبینہؔ اک ضیائے نا تمام
مُجھ کو من موسم کی ساری رازدانی دے گئی

روبینہ میر
راجوری، جموں کشمیر

کئی رشتوں کئی ناتوں کی دنیا
محض باتیں ہیں بس باتوں کی دنیا
سکون و چین سے اے سونے والے
تمہیں معلوم کیا راتوں کی دنیا
کئ رنگوں میں انساں رنگ چکا ہے
کئی طبقوں کئی ذاتوں کی دنیا
میں خود کو چھوڑ آیا ہوں کہیں پہ
میرے اندر ہے اِک یادوں کی میں
جسے کہتے ہو تم یہ دوستی ہے
وہی ہے بچھوؤں سانپوں کی دنیا
تیری دنیا حقیقت پر ہے مبنی
میری دنیا میرے خوابوں کی دنیا
اذیت ناک ہنگاموں میں لپٹی
تلخ انگیز حالاتوں کی دنیا
پتہ اسکا بہت مشکل ہے ملنا
جسے کہتے ہیں جذباتوں کی دنیا

عقیل فاروق
بنہ بازار شوپیان
موبائل نمبر؛7006542670

تمہاری یادیں اُداس شاموں کا شامیانہ
مہک سے تیری دوام پاتا ہے آشیانہ
بگڑ سا جاتا مزاج شعروں میں شاعری کا
وہ گفتگو جب کبھی جو کرتے ہے شاعرانہ
لبوں پہ تیرے جو لب رکھے ہیں تو سوچتا ہوں
کہ دور جا کے پلٹ کے تیرا وہ مسکرانا
خوشی ہوئی ہے یہ بات سن کے ہمارے دل کو
تمہارے دل میں ابھی تلک ہے مرا ٹھکانہ
پرائے گھر میں پرائی لڑکی مثال بننا
تو نام میرا ہتھیلیوں پر نہ یوں سجانا
جھکا کے نظریں بچا کے دامن قدم قدم پر
کبھی تو ان کے دلوں پہ جا کر لگا نشانہ
مجاز کوئی ہوا ہے کوئی فراز جانی
تو دل کو مت رو گیا محبت میں ہے گھرانہ
شراب پیتا نہیں ہے چھیڑو نہ ذکرِ بادہ
یہ شیخ صاحب سمجھ سکے گا کیا فسانہ
ہر ایک مطلب ہی دیکھتا ہے یہاں پہ ساگرؔ
نہ دوستی اب کسی سے میری ، نہ دوستانہ

ساگر سلام
وتناڑ کوکرناگ اننت ناگ
موبائل نمبر؛6006829932

بند آنکھوں سے بھی نظر رکھنا
ہے ضروری تیری خبر رکھنا
تم رکھو فاصلے سدا ہم سے
رابطہ تا عُمر مگر رکھنا
تم کہیں بھی رہو جُدا ہم سے
خواب و خلوت سے رہ گزر رکھنا
ٹوٹ کر ہاتھ میں نہ آئیں یہ
سنگِ مر مر کا دل جگر رکھنا
یاد آنا کوئی، قیامت ہے
بھول جانے کا تم ہنر رکھنا
بن کے میں بے زُباں رہا برسوں
بے زُبانی کی تم قدر رکھنا
اِتفاقاً کبھی ملے گر وہ
تم خُدارا خلشؔ صبر رکھنا

خلشؔ
لارم اسلام آباد کشمیر
[email protected]

ہر خطاء سہہ لینے کو تیار ہیں
دو سزا ہم تو گناہ گار ہیں

پنچھی لرزے لرزے سے لگتے ہیں کیوں
سہمے جنگل میں سبھی اشجار ہیں

آشیانے اُجڑے دیکھو ہر طرف
بے زُباں پر ظلم کے انبار ہیں

وہ ترقی کرتے ہیں ہر دور میں
جو زمانہ ساز ہیں ہوشیار ہیں

خوش نصیب ہیں کس قدر وہ لوگ سب
پاتے صورتؔ جو کسی کا پیار ہیں

صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549