غزلیات

مرا نصیب نہیں مجھ پہ مہربان رہا

قفس نشین میں اور  زیرِ آسمان رہا

وہ جرم مجھ سے ہوا ہی نہیں کبھی سرزد

کہ جس کو لے کے جہاں مجھ سے بدگمان رہا

ستم یہ تھا کہ محبت میں مر گئے جس پر

وہ اور کسی کے لئے جی کے شادمان رہا

اسے خبر تھی مرے پر کُھلے تو کیا ہوگا

وہ بے وجہ نہ  مری روکتا اُڑان رہا

پڑا جو وقت تو نا آشنا ہوئے سارے

وہ لوگ جن کے لئے میں تھا خوش گمان رہا

کرے جو دھوپ ترے حوصلوں کو پست کبھی

شجر سے پوچھ، کبھی زیرِ سائبان رہا

یہ حادثات کی تلخی ہے آگئی مجھ میں

کسی مکاں پہ، کبھی میں بھی، خوش بیان رہا

وہ درد میرا سمجھتا ہے خیر خواہ بھی ہے

وصال تک یہی عارضؔ مجھے گمان رہا

 

عارض ارشاد

نوہٹہ، سرینگر موبائل نمبر؛7006003386

 

 

صبرو سکوں یوں دلادے زندگی

بچھڑے دلوں کوملا دے زندگی

 

کب تلک یہ بوجھ اُٹھائے پھریں

شکوے گلے سب بُھلا دے زندگی

 

درمیاں کے فاصلے بڑھتے گئے

دُوریاں اب تو گَھٹا دے زندگی

 

گُھٹ رہا ہے دم اندھیروں میں یہاں

زندگی کو پھر جِلا دے زندگی

 

سُونی سُونی میری دنیا آج ہے

غم زدہ ہوں مسکرا دے زندگی

 

نفرتوں میں ہم جئیں آزاد ؔ کیوں

کاش ا پنا پن جگا دے زندگی

 

ایف آزادؔ دلنوی

دلنہ بارہمولہ، کشمیر

موبائل نمبر؛6005196878

 

 

نظر سے جو ہوجاتی ہیں دُور آنکھیں

تو رِستی ہیں یہ مِثلِ ناسور آنکھیں

ہے پیشِ نظر عجز کی جو تجلی

نہیں دیکھ پاتی ہیں مغرور آنکھیں

خزانۂ گوہر تو ہے اِن کے دم سے

حدف کا مقدّر کوہِ نُور آنکھیں

جنہیں پیش قدمی کی خود ہے ضرورت

کسے رہ دکھائیں گی معذور آنکھیں

کسی گھر کے دروازے ہوں بند جیسے

نظر آئیں ایسے ہی مسرور آنکھیں

ہو احساسِ تلخی تو آنش فشاں ہیں

سکوں ہو تو جنت کی ہیں حُور آنکھیں

 

سردار پنچھیؔ

جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ کھنہ پنجاب

موبائل نمبر؛9417091668

 

 

مجھ میں رچی بسی جو روحِ مقیم ہے

شاید اسی لیے یہ حالت سقیم ہے

بھاری میں آج خود کو لگنے لگا بہت

پہنا دیا مجھے جو ذاتِ حریم ہے

آوازِ طورِ سینا کیسی سنائی دی

طاقت کمالِ اوّل ضربِ کلیم ہے

ہے کارِ زارِ دنیا آہ و فغاں پڑا

نالۂ فراق جب سے نالۂ غنیم ہے

سوز وگداز کیا ہے آبِ خمار کیا؟

اپنا جگر تو یاورؔ روشن حلیم ہے

اپنا عقیدہ روشن اتنا کٹھن نہیں

شعروں کو گھنگھنانا اجرِ کریم ہے

منزل بھی آخرش ہی دے گی دعا مجھے

جرمِ کبیرہ میرا اتنا عظیم ہے

 

یاورؔ حبیب ڈار

بڈکوٹ ہندوارہ،موبائل نمبر؛6005929160

 

 

پل بھر ہنسی لبوں پہ سجا کر چلا گیا

وہ اجنبی سراب دکھا کر چلا گیا

اک شخص جب قریب سے آ کر چلا گیا

ایسا لگا کہ جان چھڑا کر چلا گیا

جس کو سمجھ رہا تھا سمندر میں حیف ہے

میرے لہو سے پیاس بجھا کر چلا گیا

فرہاد ہوں نہ قیس میں مجرم کوئی مگر

ہر شخص مجھ پہ سنگ اُٹھا کر چلا گیا

مجھکو امیرِ شہر سے کمتر سمجھ نہ لو

منصب نہیں میں پیار کما کر چلا گیا

مانا اسے بچھڑنے کا دکھ تھا نہیں مگر

رخصت کے وقت آنکھ بہا کر چلا گیا

عارفؔ تمہارے شہر میں آیا ضرور تھا

شب دستِ دل میں خاک اٹھا کر چلا گیا

 

جاوید عارفؔ

شوپیان کشمیر ،موبائل نمبر؛7006800298

 

 

غم زدّوں کی غم نِگاری ہوگئی

یہ غزل کیا آہ و زاری ہوگئی

رفتہ رفتہ دل کی یہ دانِشوری

ہائے دل کی نابکاری ہوگئی

ہوگیا مجھ پہ مسلط جب سے وہ

کوئی وحشت جیسے طاری ہوگئی

جب بھی آیا ذکر تیرا شعر میں

کاغذوں کی داغداری ہوگئی

کر دیا  اس عشق نے آتش کو راکھ

خاک کی بھی خاکساری ہوگئی

ہائے سوزِ عشق میں دیکھو خلشؔ

کیا سے کیا حالت ہماری ہوگئی

 

خلشؔ

لارم اسلام آباد ،کشمیر

[email protected]

 

 

آنکھوں سے یوں کبھی میں جو پڑ ھتا نہیں گیا

وہ ایک خواب جو کبھی دیکھا نہیں گیا

جو بزم نام کی تھی مری اُس کے بغیر تھی

کیا بزم تھی کہ مجھ سے بھی بیٹھا نہیں گیا

اک شام  میرے در سے تھی بھٹکی ہوئی کہیں

جس کو بھٹکتے دیکھا تو دیکھا نہیں گیا

جو گیت میرے تجھ کو سنائے گئے یہاں

میں ساز ہوں کہ ان کا جو چھیڑا نہیں گیا

اک ہجرِ دائمی مرا، اک وصلِ عارضی

اُس کو بغیر مانگے وہ سجدا نہیں گیا

دہشت گلاب کی ترے دل میں بڑی رہی

جازبؔ کے دل سے آج بھی صحرا نہیں گیا

 

جاذب سوپوری

آمپورہ سوپور

موبائل نمبر؛7006706987

 

 

زندگی میں بھی کیا کیا سفر آتے ہیں

کبھی تو غم اور کبھی خوشی  لاتے ہیں

تم اپنا کام ،ہنر یوں ہی جاری رکھو

لوگ تو سفید کو بھی کالا بتاتے ہیں

خدا کی رضا کے لئے انہوں نے کیا نہ کیا

وہ راضی ہے اس سےجو خود کو مٹاتے ہیں

اس جہاں میں سب خطاوں کے مجرم نہیں

یہاں تو لوگ قید میں یوسف بھی لاتے ہیں

مسکرانا سیکھ لو سہیل اپنی زندگی میں

تمہارے غم تو لوگ خود ڈھونڈ لاتے ہیں

 

سہیل احمد

ڈوڈہ مرمت،جموں

[email protected]

 

 

آنکھیں کمال کی ہیں

سانسیں کمال کی ہیں

لاثانی حسن تیرا

باتیں کمال کی ہیں

کہتے ہیں شہرِ دل کی

راتیں کمال کی ہیں

دوری کی صبحیں دلکش

شامیں کمال کی ہیں

ہائے وہ مسکرانا

یادیں کمال کی ہیں

حضرت جنابِ غالب

غزلیں کمال کی ہیں

مہجوری کے دکھوں کی

فصلیں کمال کی ہیں

اس کائناتِ کُل کی

مائیں کمال کی ہیں

اس عشق کے سفر کی

راہیں کمال کی ہیں

لاہور کی حسینہ

بانہیں کمال کی ہیں

بسملؔ فرنگیوں کی

کھالیں کمال کی ہیں

 

سید مرتضیٰ بسمل

پیر محلہ شانگس اسلام آباد

موبائل نمبر؛6005901367