غزلیات

زندگی کیسے نبھائیں، یہ سمجھنا چاہئے
بوجھ یہ کیسے اُٹھائیں، یہ سمجھنا چاہئے
کہکشاں ساری ،یہ بحر و بر تھے تیرا کارواں
اب  فقط کالی گھٹائیں، یہ سمجھنا چاہئے
یادِ ماضی ہے تمہارے واسطے سوہانِ روح
درد کی کیا ہیں دوائیں، یہ سمجھنا چاہئے
اک نیا ہی عزم ہے درکار ساری قوم کو
پاؤں پھر  کیسے جمائیں، یہ سمجھنا چاہئے
چار سُو ہیں راستے ہی راستے پیشِ نظر
راہِ حق پہ کیسےآئیں، یہ سمجھنا چاہئے
کردیا جھوٹے خداؤں نے ہمیں رُسوا بہت
ہم کو اتنی کیوں سزائیں، یہ سمجھنا چاہئے
جذبہء ایثار سے قومیں ہوئیں محروم جب 
مسندِ عزت نہ  پائیں، یہ سمجھنا چاہئے
اپنی دستارِ فضیلت کا اگر احساس ہے
کیوں درِباطل پہ جائیں،یہ سمجھنا چاہئے
اب نہ بسملؔ نیند کی چادر رکھو اوڑھے ہوئے
تاک  میں ہیں سو بلائیں، یہ سمجھنا چاہئے
 
خورشیدبسملؔ 
تھنہ منڈی ، راجوری
موبائل نمبر؛9622045323
 
کوئی تاک میں ہے ہواؤں  کے پیچھے 
مگر جستجو ہے چراغوں کے پیچھے 
 
تماشا ہوا ہے زمیں پر ذرا سا 
تیرا کھیل جاری ہے فضاؤں کے پیچھے 
 
زمیں کو بنایا مرا آشیانہ 
تری لامکانی ستاروں کے پیچھے 
 
کبھی سرخیٔ گُل پہ بھی غور کرنا 
کوئی چھپ گیا ہے گلابوں کے پیچھے 
 
درختوں کی آتش میں یہ کیا  دھواں ہے ؟
کوئی دل جلا ہے چناروں کے پیچھے 
 
میری التجائیں بلندی پہ پہنچیں 
کسی کی دعا ہے دعاؤں کے پیچھے
 
اِدھر دھوپ میں وہ بہت روئے عادلؔ
اُدھر اشک برسے گھٹائوں کے پیچھے 
 
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی ،موبائل نمبر؛9906540315
 
 
وہ جو بچھڑا ہے ہمارا تو نہیں ہو سکتا
پھر بھی یادوں سے کنارہ تو نہیں ہو سکتا
میری کشتی کو تلاطم میں ڈبویا تُم نے
میرے دُشمن تُو سہارا تو نہیں ہو سکتا
تیری مرضی پہ منحصر ہے تُو چاہے جِس کو
تُجھ پہ اک میرا اجارہ تو نہیں ہو سکتا
غمِ ہجراں بھی قیامت سے کوئی کم تو نہیں
ایسے عالم میں گزارا تو نہیں ہو سکتا
میرے جذبات کی قیمت تو لگائی تُم نے
چند سِکوں سے کفارہ تو نہیں ہو سکتا
درد اتنے ہیں سنبھالے نہیں جاتے جاویدؔ
بانٹ بھی لوں جو خسارہ تو نہیں ہو سکتا
 
سردارجاویدخان
 مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
 
 
آج کیوں یاد آرہے ہو تم
سوئے ارماں جگا رہے ہو تم
 
اس زمانے کی بد نگاہوں سے
مجھ کو کتنا بچا رہے ہو تم
 
میں نے لکھا کہ آنے والی ہوں
اپنے گھر کو سجا رہے ہو تم
 
سب سے نظریں بچا کے محفل میں
پاس مجھ کو بلا رہے ہو تم
 
رات یہ خواب میں نے دیکھا ہے
مجھ کو دل میں چھپا رہے ہو تم
 
طلعت سروہا
سہارنپور، اتر پردیش
موبائل نمبر؛9897453745
 
 
دل میں اُلفت اے یار! لایا ہوں
تیری خاطر قرار لایا ہوں
 
جو شرابِ کہن میں بھی نہ ہو
ایک ایسا خمار لایا ہوں
 
جس کو ہاتھوں سے کر دیا آباد
کر نظر وہ دیار لایا ہوں
 
کیوں چمن میں اُداس ہے بلبل 
دیکھ فصلِ بہار لایا ہوں 
 
میں درِ عشق سے یہ پلکوں پر
ساتھ اپنے غبار لایا ہوں
 
آج شادابؔ باغِ الفت سے
پھول چن کر ہزار لایا ہوں
 
 شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
 
 
 
کھوجاتا ہوں یادوں کی پُروائی میں
یاد آتی ہے جب اُس کی تنہائی میں
ساری عمر کیا ہے تُو نے رُسوا مُجھے
آخر تُجھ کو مِلا ہے کیا رُسوائی میں
پلٹ کے واپس پھر وہ نہیں ہیں آسکتے
دِل جو گِر جاتے ہیں غم کی کھائی میں
اِنساں سے انساں ہے کتنا دُور ہوا
دیکھ رہا ہوں کیا کیا تیری خُدائی میں
آپ کو اِس میں کوئی فرق نہیں پڑتا
ٹوٹ سا جاتا ہے یہ دِل پسپائی میں
دِل ونظر پر چھا جاتا ہے وہ چہرہ
عجیب کشش ہے چہرے کی رعنائی میں
اِنتی جلدی کبھی نہ ہوگی بھر پائی
وقت لگے گا زخموں کی بھرپائی میں
کتنے گہرے ہیں میرے اشعار ہتاشؔ
آپ کہاں تک جائیں گے گہرائی میں
 
پیارے ہتاشؔ
دوردرشن لین جموں
موبائل نمبر؛8493853607
 
 
سنا ہے رویا کرتا ہے مجھ کو یاد کرکے
جو آیا ہوش میں زندگی برباد کرکے
اسے تو دور کے ڈھول ہی اچھے لگے تھے
جبھی رخصت ہوا تھامجھے ناشاد کرکے
اسی خاطر سجایا تھا اپنے دل کا چمن
انوکھے پھول میں نے بہت ایجاد کرکے
مجھے وہ بے وفا  ہی سمجھتا ہے ابھی تک
کوئی ہو گا نہیں نفع اب فریاد کرکے
کہ ویرانی تو چھائی ہے میرے دل کے اندر
عدو کا گھر گیا تھا جبھی آباد کر کے
مجھے بھی یاد آتا ہے وہ لمحہ تو اکثر
جو اپنی زندگی سے گیا آزادؔ کرکے
 
ایف آزادؔ دلنوی
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر؛6005196878
 
 
دردِ دل آنکھوں سے کب ظاہر ہوا
مجھ سے بڑھ کر بھی کوئی صابر ہوا؟
 تھا کبھی دانش جو ہے دیوانہ وار
کیا سے کیا میں یار کی خاطر ہوا
یا خدایا شکوہ پرور میں نہیں
ہو الم یا درد و غم شاکر رہا
ورد کرتا ہوں میں تیرے نام کا
تھا میں سرکش آج میں ذاکر ہوا
لفظ میرے پاس یہ تھے ہی کہاں
درد کو لکھ لکھ کے میں شاعر ہوا
تجربے بھی کام کچھ تو آگئے
دردِ دل سہنے میں دل ماہِر ہوا
پڑ گئی زنجیر دل میں کب خلشؔ
کون دل پر صاحبِ قادر ہوا
 
خلشؔ
لارم اسلام آباد کشمیر
 
اے مرگ میکدے سے نکلنے تو دیجئے
توبہ ہی وقت آخر اب کرنے تو دیجئے
 
لمبا سفر نہ ہو ہماری عمر کی طرح
دنیا اگر سراء ہے یاں رُکنے تو دیجئے
 
پتھر خرید لایا میں پھولوں کو بیچ کر
ٹھوکر نصیب میں ہے گر، کھانے تو دیجئے
 
ہر گام پہ نشتر ملے، مر کیوں نہ گیا میں
باقی یہ ابھی درد ہے سہنے تو دیجئے
 
پھر ہوگا اُجالا یہاں تم دیکھنا سعیدؔ
چھائے ہیں جو بادل، انہیں چُھٹنے تو دیجئے
 
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906355293
 
 
کرو گے یاد تم جب ہم نہ ہو نگے
اندھرے زندگی کے کم نہ ہو نگے
 
بچھڑنے کا کوئی بھی غم نہ ہو گا 
اگر رستے میں ہم باہم نہ ہونگے
 
بڑا ظالم ہے  وہ دلبر ہمارا
ستم اُس کے کبھی بھی کم نہ ہونگے
 
خوشی کے دِن نہیں رہتے ہمیشہ
نہ سوچو زندگی میں غم نہ  ہو نگے
 
 منیؔ با طل خُدائوں کے تو آ گے
ہمارے سر کبھی بھی خم نہ ہو نگے
 
 ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
موبائل نمبر؛9906397577
 
 
کچھ عشق والے حالات کرلو
مجھ سے یونہی بات کرلو
 تھک چکا ہوں بہت دنوں سے
کوئی  ان کو  رات کرلو
نامور ہونگا تیرے شہر میں
بس بدنام میری ذات کرلو
جانا تیری آنکھوں سے سہی
عیاں وفا کے جذبات کرلو
جھک جھک کے ابتداء سے
اپنی انتہا تک کائنات کرلو
 
فاحد احمد انتہاؔ
 واگہامہ بجبہارہ،اننت ناگ
موبائل نمبر؛ 9906161667
 
 
منتظر لبِ شکوہ کا ہوں ، پر وہ مقام بھی آیا نہیں
تعلق تیرا میرا گویا ، کچھ کام بھی آیا نہیں
 
یہ شہد نما لہجہ تمہارے لئے مقرر ہے
مجھ پر ایسے تلخ رویّوں کا الزام بھی آیا نہیں
 
تمہارے آنے کی آمد پر تمہاری خوشبُو تو آئی
جب تُم نہ آئے کیونکر میرا نام بھی آیا نہیں
 
یہ تشنہ لبی بھی کس صورت اجازت مانگے
میرے لب اب تھرتھرائے کہ جام بھی آیا نہیں
 
اُنکے جانب قدم چلتے ہی جائیں مگر شائقؔ
وہ مصروفِ انتظام اس قدر ، اس شام بھی آیا نہیں
 
شائقؔ فاروق وانٹ
کشتواڑ (جموں)
موبائل نمبر؛9682606807
 
 
جب بھی دل ہمکلام ہوتا ہے
عشق کو یوں سلام ہوتا ہے
ملتا ہے بس سکونِ دل مجھ کو
وردِ لب جب وہ نام ہوتا ہے
آہ جب نکلی میرے دل سے بھی
لب خموشی میں کام ہوتا ہے
وہ سبھوں کے قریب دکھتا ہے 
جب بھی اُن سے کلام ہوتا ہے 
چشم تر یوں ہوا میں ان کے پاس
خوشیوں کا بھی پیام ہوتا ہے
اس نے سبٓدر کو کافی خوشیاں دیں
وقت پہ میرا کام ہوتا ہے 
 
سبدر شبیرؔ
اوٹو اہربل کولگام
موبائل نمبر؛ 9797008660
 
 
تجھ کو خریدنی ہو اگر بیچ رہی ہوں
ہے زندگی اُدھار مگر بیچ رہی ہوں
دکھلا کے اپنے زخم کہا ماں نے پسر سے
میں تیرے لیے خونِ جگر بیچ رہی ہوں
میں نے تو اپنا باغ ہی مسمار کر دیا
سب کو لگا اشجار و ثمر بیچ رہی ہوں
میرے نصیب میں تو کوئی پھل نہیں لکھا
اس واسطے میں اپنا صبر بیچ رہی ہوں
کشکول دیکھ ہاتھ میں، کیوں ہنستے ہو لوگو
اک خواب میں ،میں لعل و گہر بیچ رہی ہوں
جو لوٹنے آئے تھے میرا گھر یہ وہی ہیں
جن کے لیے اسبابِ بسر بیچ رہی ہوں
امیدِ صبح گاہی کی اک بزم ہے مصباحؔ
اِس بزم میں پُرنور سحر بیچ رہی ہوں
 
مصباح ؔفاروق
لرو ترال، پلوامہ
 
 
کاسۂ دل بھر گیا ہے رنج و الم سے
اب چھلکتا ہے وہ میرے نوکِ قلم سے
 
کی شکایت بے رُخی کی سنگدل سے خوب
لیکن ازالہ ہو نہ پایا میرے صنم سے
 
زندگی بھر اُن سے نبردآزماء رہا
کٹھنائیاں پچھاڑ دی ہیں اپنے دم خم سے
 
میں خستہ جاں ہوں، مجھ سے مرا حال نہ پوچھو
ہلکان ہوا ہوں میں اُس کے جو رو ستم سے
 
یہ عشق کی ناکامی نیئرؔ کیسے ہے گزری
خالی ہوا قلب و جگر اب زیر و بم سے
 
غلام نبی نیئرؔ
کولگام کشمیر
موبائل نمبر؛9596047612