عمران راقم کی شاعری پر ایک نوٹ مقالہ

ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

نیا آسماں ہے ، نئی فکر ہے
ہماری غزل میں قدامت نہیں
عمران راقم کا یہ شعر ان کے تیسرے مجموعئہ غزل، “غزل زار “کا ایک طرح سے آئینہ ہے اور اس آئینہ کو جب ہم غائر نظر سے دیکھتے ہیں تو انداز یہ ہوتا ہے کہ یہ ہمیں وہی دکھاتا ہے جو ہمارے گرد و پیش میں موجود ہے ۔راقم اپنے معاصرین میں اپنے نئے موضوعات اور انوکھے لب و لہجے کے اعتبار سے نہ صرف ممتاز ہیں بلکہ انہیں ایسی مقبولیت بھی حاصل ہے جو کسی کسی کے حصے میں ہی آتی ہے ۔ان کے یہاں اپنے عہد کا شعور اس قدر پختہ اور رواں ہے کہ اس عہد کا کوئی بھی حساس فرد ان کے اشعار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
۱۹۸۰ کے بعد عام طور سے نئے شعرا نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بدلے ہوئے حالات پر کثرت سے اشعار کہے ۔ لیکن اس شعر گوئی کے دوران انہیں یہ خیال ہی نہیں رہا کہ وہ ملکی اور عالمی احوال کو شعری جامہ تو پہنا رہے ہیں لیکن شاعری کی اصل روح یعنی شعریت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لئے اس عہد میں شعریت اور غنائیت سے عاری اشعار کی بھر مار نظر آتی ہے ۔بے لطف ،بے کیف اور بے رنگ شاعری نے اس وقت جو ماحول بنایا تھا اس کے اثرات آج بھی بعض شعرا کے یہاں بہ آسانی دیکھنے کو مل جائیں گے۔میں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا ۔اس بابت میں پروفیسر وہاب اشرفی کے رسالہ “مباحثہ ” میں برسوں پہلے تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
مگر عمران راقم کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تمام تر شعری لوازمات کے ساتھ عصری حسیت بھی رکھتے ہیںاور معاشرتی ادراک بھی ۔ سہل زبان اور رواں بحروں میں کہے گئے ان کے اکثر کلام اپنے قارئین کو نہ صرف محظوظ کرتے ہیں انہیں نئے زمانے میں نئے طریقے سے غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔مشاعروں میں عام طور سے عوامی اور سیاسی و ہنگامی حالات پر شعر کہ کے داد حاصل کرتے ہوئے آپ نے بہتوں کو دیکھا ہوگا لیکن ہم نے راقم کو سخت اور سنگین مسائل کو بھی پیش کرکے دادوتحسین بٹورتے ہوئے دیکھا ہے ،اور روز بروز ان کی مقبولیت میں ہوتے ہوئے اضافے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ آئیے اس مجموعے کی غزلوں سے چند اشعاردیکھتے ہیں۔ :
بسیرا چند پرندوں کا تھا جہاں کل تک
وہاں پہ گنبد و مینار کی کہانی ہے
کسی کو خوف زدہ کرتی ہے یہ گمنامی
کسی کو کثرت تشہیر بھی ڈراتی ہے
اوڑھ کر سوتا رہا میں مصلحت کی چادریں
دشمن جاں مجھ سے میری حق بیانی لے گیا
ہم صبح کی امید لئے پھر تے ہیں دل میں
آنکھوں میں لئے شام کا منظر نہیں آنا
شیشے سے کچھ تو سیکھ لے انسان بھی ذرا
کھا کھا کے چوٹ رکھتا ہے پتھر کی آبرو
ہم بے لباس شوق پڑے ہیں اسی سبب
سایہ بھی کوئی چاہئے دیوار کے لئے
غریبی میں ہیں خوش عمران راقم
پریشاں ہیں تو جھوٹی شان والے
راقم کے یہ اشعار بغیر کسی مشقت اور مغز ماری کے یہاں کوٹ کئے گئے ہیں۔ اس سے بہتر اور عمدہ بھی اس مجموعے میں موجود ہیں۔ قارئین اگر ان اشعار پر سرسری نظر بھی ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ شاعر کی نگاہ کتنی دور رس اور دور بین ہے ،اور وہ کن کن کوائف کو اپنے محسوسات کی بھٹی تپا کر نہ صرف انہیں تابندہ کرتا ہے بلکہ اس کی فوری ترسیل پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ شاعر کے یہاں ماضی کا ۔۔۔بھی ہے اور حال کا تفکر بھی ۔ ساتھ ہی روشن مستقبل کی آس اور امید بھی ہے ۔ ان اشعار میں عہد موجو د کی بے حسی اور بے اعتنائی بھی ہے اور نئی صبح کی امید اور قناعت و اطمینان کی بشارت بھی ہے ۔
عمران راقم کے موضوعات تنوع ہیں اور ان موضوعات شعری پیکر میں ڈھالنے کا ہنر بھی ہے۔ امید قوی ہے کہ ان کے گزشتہ مجموعہ کی طرح یہ مجموعہ بھی قبولیت خاص و عام حاصل کرےگا اور ادب کے جانکار اور فنکار ان کی شاعری میں وسعت ذہنی اور فراخ قلبی کے ساتھ اظہار خیال کریں گے۔
(رابطہ۔ 8083102570)
<[email protected]>