علامہ یوسف القرضاوی ۔آسماں تیری لحد پہ شبنم اَفشانی کرے ذکرِ خیر

محمد ہاشم القاسمی

عالم اسلام کے ممتاز و معروف عالم دین، عظیم اسکالر، سیکڑوں کتابوں کے مصنف، اخوان المسلمین کے فکر کے حامل، صدر عالمی اتحاد برائے علمائے اہل اسلام، شیخ علامہ یوسف القرضاوی مصر کے شہر المحلہ کے علاقے صفط تراب میں 9 ستمبر 1926ء کو پیدا ہوئے۔ وہ جب دو برس کے تھے، ان کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ہاں پرورش پائی۔ ان کے خاندان والے انہیں تاجر یا کارپینٹر بنانا چاہتے تھے ۔ تاہم وہ اس دوران قرآن مجید حفظ کرتے رہے۔ اور صرف نو برس کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کر لیا۔
ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر جناب شمس تبریز قاسمی علامہ یوسف القرضاوی کے بارے یوں رقم طراز ہیں :’’علامہ یوسف القرضاوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے،آپ کا وطنی تعلق مصر سے ہے لیکن گذشتہ چار دہائی سے آپ قطر میں قیام پذیر ہیں،ایک سو سے زائد معرکۃ الآراء کتابوں کے مصنف ہیں۔ اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں ، دروس وخطابات کی وڈیوز اور سی ڈیز کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے، ٹوئٹر اور فیس بک پر آپ کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ الجزیزہ ٹی وی چینل پر دنیا بھر میں چھ کڑور سے زائد لوگ آپ کو سنتے ہیں، آپ کے معتقدین و محبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ ، امریکہ اور بر صغیر تک پھیلا ہوا ہے ، آپ کو دنیا بھر میں مجتہد، مجدد، اور مفکر، کی حیثیت سے جاناجاتاہے۔مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں سب سے بڑے اسلامی اسکالر ، فقیہ اور عالم دین کی حیثیت آپ کو حاصل ہے‘‘۔
علامہ یوسف القرضاوی اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر انہیں پہلی بار 1949 میں جیل جانا پڑا تھا۔ ایک طویل عرصہ تک وہ جماعت اخوان المسلمون میں سرگرم رہے، اس دوران انہیں اخوانی قیادت نے مختلف مناصب اور عہدے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
اخوان المسلمین 1929ء میں مصر میں قائم ہوئی۔ اس کے بانی شیخ حسن البنا تھے ،جو اسسروریہ کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے اس تحریک کا آغاز 1923ء میں کیا تھا مگر 1929ء میں اسے باقاعدہ شکل دی گئی تھی ۔ اس کے اغراض و مقاصد میں اسلام کے بنیادی عقائد کا احیا اور ان کا نفاذ تھا۔ مگر بعد میں یہ جماعت سیاسی شکل اختیار کر گئی۔ مصر میں یہ تحریک کافی مقبول ہوئی اور اس کی شاخیں دوسرے عرب ممالک میں بھی قائم ہوگئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کے اراکین کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک اخوان کی دعوت المسلمون مشرق کے بیشتر عرب ممالک میں جڑ پکڑ چکی تھی لیکن اس وقت بھی اخوان المسلمین کا سب سے مضبوط مرکز مصر ہی تھا۔ جنگ کے بعد اخوان نے عوامی پیمانے پر سیاسی مسائل میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے 1948ء میں فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد جہاد فلسطین میں عملی حصہ لیا اور اخوان رضا کاروں نے سرکاری افواج کے مقابلے میں زیادہ شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ دوران جنگ انگریزوں نے آزادی مصر کا جو اعلان کیا تھا، اسے اخوان نے فوری طور پر پورا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے اخوان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا اور دو سال کے اندر اندر اخوان کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ ہمدردوں کی تعداد اس سے دو گنی تھی۔ اخوان کی روز بروز مقبولیت سے اگر ایک طرف شاہ فاروق اول کو خطرہ محسوس ہونے لگا تو دوسری طرف برطانیہ نے مصر پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ اخوان پر پابندی لگائی جائے۔1954ء میں مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر نے الزام لگایا کہ اخوان کے اراکین نے جنرل ناصر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی، جس کے بعد یہ جماعت خلاف قانون قرار دے دی گئی اور اس کی املاک ضبط کر لی گئیں، البتہ یہ الزام کبھی ثابت نہ ہو سکا۔ چنانچہ 9 دسمبر 1948ء کو مصری حکومت نے اخوان المسلمون کو خلاف قانون قرار دے دیا اور کئی ہزار اخوان کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
علامہ یوسف القرضاوی یورپین کونسل فتاویٰ اینڈ ریسرچ کے سربراہ رہے ۔ انہیں عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل رہی ۔ وہ اسلام آن لائن ڈاٹ نٹ پر بھی لوگوں کے سوالات کے جوابات اور فتاویٰ جاری کرتے رہے ۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت انہیں معتدل قدامت پسند شخصیت قرار دیتی ہے۔ ان کے خیال میں یوسف القرضاوی عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ انہیں سخت گیر اسلام پسند قرار دیتے ہیں چونکہ عالمگیر انسانی حقوق، جمہوریت کے بعض بنیادی اصولوں کو مسترد کرتے ہیں۔
سینئرصحافی و کالم نگار مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی نے ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’ علامہ یوسف القرضاوی جہاں دنیا بھر کے تمام مظلوم مسلمانوں کے زبردست حامی اور ظالموں کو للکارنے والے تھے، وہیں دعوت ِدین کی تڑپ رکھنے والے ایک بے لوث داعی اور صبر و عزیمت کے پیکر تھے۔ اس کا اندازہ علامہ قرضاوی کی تقریروں و تحریروں اور دروس و خطابات سے لگایا جاسکتا ہے۔ علامہ قرضاوی کو اس بات کا بھی شرف حاصل ہے کہ انہوں نے عالم اسلام کے عظیم داعی و مبلغ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نماز جنازہ قزافی اسٹیڈیم لاہور میں پڑھائی تھی‘‘۔ اسلام کی نشرواشاعت اور دینی علوم کی خدمت کی بنیاد پر آپ کو دسیوں اعلی ترین ایوارڈ مل چکے ہیں جن میں سعودی عرب کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ ،دبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ ،سلطان حسن البلکیا ایوارڈ سرفہرست ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہیں کہ ایک طویل عرصے تک آپ سعودی عر ب اور آل سعودی کے یہاں بہت اہمیت کے حامل تھے ، سابق سعودی فرماں رواشاہ عبد اللہ مرحوم علامہ یوسف القرضاوی سے انتہائی عقیدت سے پیش آتے تھے ، بتایا جاتاہے کہ سعودی حکومت نے علامہ یوسف القرضاوی کو کئی اہم عہدوں کی پیشکش بھی کی تھی لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکارکردیاتھا۔
علامہ یوسف القرضاوی کا وہ بیان جو انہوں نے قطر پر پابندی اور دہشت گرد نامزد کئے جانے کے بعد دیا :
’’بحمد اللہ میں قطر میں ہوں اور پہلے سے بلند ہمتی عزم و استقلال اور سازشوں سے ماورا جی رہا ہوں کوئی شخص مجھ پر منافقت کا داغ نہیں لگا سکتا ! ۔اگر میں منافقت کرتا، سلاطین کا دم چھلا بنتا اور کاسہ لیسی میرا وطیرہ ہوتا تو عیش و عشرت سے طبعی موت تک جیتا اور تھوڑی بہت کوشش کے بعد وہ بڑے بڑے مناصب پاتا ،جن کی مجھے بارہا پیش کش کی جا چکی ہے ۔لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے دین اور اصل بنیاد کی پیروی کرنی ہے اور اپنے ٹھوس موقف پر جینا ہے۔ اگر ممکن ہے تو میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال لو میری آواز روکنے کے سارے حربے کر لو، میری گردن پر چھری رکھ لو، میرے ایمان و استقلال میں ذرا بھی فرق نہ دیکھو گے۔ سچائی کی روشنی میرے دل میں ہے، میرا دل میرے رب کے قبضہ میں ہے، اور میرا رب ہی میرا مددگار اور استقلال بخشنے والا ہے، میں اپنے دین، عقیدے اور سچائی کے راستے پر ہی چلوں گا اور اسی پر اپنی زندگی ہنستے مسکراتے وار دوں گا ۔یہی میں ظالموں سے کہتا ہوں اور ابھی تک میں اپنے اسی موقف پر قائم ہوں، میں اپنے دین کو مطعون نہیں کر سکتا ‘‘(ویکی پیڈیا )
فروری 2011 کو قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی نے یہ سنہری ہدایات جاری کیا تھا کہ ’’اس انقلاب کو ان منافقوں کے ہاتھوں چوری نہ ہونے دیں جنھوں نے اپنا مکروہ چہرہ چھپایا ہوا ہے۔ ابھی انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی مصر کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے اس لیے اپنے انقلاب کی حفاظت کرو‘‘۔
علامہ یوسف القرضاوی کے مغرب کے خلاف دو ٹوک موقف کی بنیاد پر بعض عرب مالک نے اُن پر دہشت گرد کا لیبل لگا رکھا تھا۔شیخ قرضاوی کافی عرصے سے علیل تھے اور قطر میں زندگی گزار رہے تھے، انکی آفیشل ویب سائٹ اور ٹوئٹر اکاؤٹ سے 26 ستمبر 2022 بروز سوموار کی صبح انکی وفات کی اطلاع دی گئی ۔ ان کے آفیشل ٹیوٹر میں کہا گیا ’’خدا کی رحمت کے پاس جاؤ، اس کے بزرگ، امام یوسف القرضاوی، خدا ان پر رحم کرے، جنہوں نے اسلام کے احکام کی وضاحت اور اپنی قوم کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔‘‘
علامہ قرضاوی اپنے پیچھے تین بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑ گئے ہیں، ان میں سے تین اولاد نے برطانیہ یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کیا ہے، جبکہ ان کی ایک بیٹی الہام القرضاوی عالمی سطح پر نیوکلیئر سائنس داں کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ شیخ القرضاوی کے والدعبد الرحمن یوسف القرضاوی شاعر اور سیاسی رہنما تھے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
آسمان تیری لحد پر شبنم افشائی کرے
(رابطہ۔ 9933598528 )
<[email protected]