عصر حاضر کی معاشرتی بُرائیاں اور ان کا حل حسبِ حال

  محمد جنید راتھر۔ترال
انسانی تاریخ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمین پر انسانی تاریخ کے ہر دَور میں دوگروہ رہے ہیں ایک صالحین کا اور دوسرا طاغونی صفات و مفسدین کا۔ مفسدین کے غالب آنے کی صورت میں معاشرہ شروفساد، ظلم و زیادتی، دشمنی، قتل و غارت گری کی آماجگاہ بن جاتا ہے جب کہ مصلحین کے غالب آنے کی صورت میں یہی معاشرہ امن و امان، سکون و اطمینان، اخوت و محبت اور خیر خواہی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ موجودہ دَور میں نہ صرف ہمارا معاشرہ بلکہ پوری دنیا ’’ فساد فی الارض‘‘ کی بدترین شکل سے دوچار ہے۔ خواہ دَور جدید کے مفسدین اسے تہذیبی ترقی، جدت پسندی، معاشی خوشحالی، اور علمی بیداری کا نام ہی کیوں نہ دیں مگر اصل حقیقت یہی ہے کہ آج انسانیت ہر جگہ لہولہان اور شرمسارہے ۔انسان کو خدا نے مکرم پیدا کیا ہے۔ دنیاوی سازوسامان سے بڑھ کر اس کی زندگی کا کوئی خاص اور اعلیٰ مقصد ہے۔ مگر ستم بالائے ستم یہ کہ انسان آج حیوانی صفات میں اس قدر گرفتار ہے کہ اسے حرص وہوس اور خود غرضی کے سواکچھ نظر نہیں آتا۔ آئے دن ہمیںاخبارات کے صفات پر لوٹ مار، قتل و غارت، فحاشی و بدکاری اوردھوکا دہی کی موٹی موٹی سرخیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کے اعمال ہی ہیں جن کی بناء پر آج انسان ہرسُو پریشان اور سکونِ قلب سے عاری ہے۔ اپنے اصلاف کے اوصافِ حمیدہ سے بے بہرہ آج کا انسان اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑ کر مستقبل کی طرف رواں دواں ہے۔ اس کی دلچسپی کا محور مادہ پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔دولت کے نشے میں چُور آج کے انسان نے انسانیت کا لبادہ اتار کر حیوانیت کی ردا اوڑھ لی ہے۔ اپنے ضمیر کو مار کرغیرت نام کی چیز سے خلاصی حاصل کرلی ہے، جدھر دیکھیںاخلاقی اقدار پست اور پامال نظر آتے ہیں، لوگ حیوانوں کی طرح شر کے پیچھے بے تحاشہ دوڑے چلے جارہے ہیں۔ معاشرہ اب اُن خطوط پر استوار ہورہا ہے لگتا ہے کہ وقت قریب میں عرب کے دورِ جہالت اور موجودہ دَور میں چنداں فرق نہیں رہے گا۔ انسانی بے ضمیری کے کن کن پہلوؤں سے پردہ ہٹایا جائے؟رشوت ستانی ہمارے رگ وپے میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ اب یہ گناہ ’گناہ‘ ہی محسوس نہیں ہوتا۔ استاد اور شاگرد کا معتبر و پاک رشتہ بھی اپنی اہمیت و قدر اور وقارکھو چکا ہے یہ مقدس اور روحانی تربیت کا فریضہ انجام دینے والا رشتہ بھی اب کئی معنوں میںلین دین کی شکل اختیار کرگیا ہے۔جب امتحان میں نقل کی روک تھام پر مامور استاد طلاب سے پیسہ لے کر قبل از امتحان سوالنامہ ہی فروخت کر لے تو اُسے پھر قوم کا معمار کہنا بجا ہے یا قوم کا غارت گر؟ یہی طالب علم اعلیٰ نمبرات لے کر کل جب ڈاکٹر بن جاتا ہے تو مریض کی پیٹ سے جراحی (آپریشن )کے بعد بھی مقراض برآمد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے بدلے جگر کا علاج ہوتا ہے۔ یہی ڈاکٹر جسے مریض مسیحا کا درجہ دیتے ہیں آج کل مریضوں کو سرکاری ہسپتال کے بجائے اُس کے سجائے ہوئے نجی (پرائیوٹ) کلنک پر آنے کو کہتا ہے اورپھر ان مریضوں سے خوب پیسے بٹورے جاتے ہیں اور یوں اس مقدس پیشے کی ساکھ اور اعتباریت کا جنازہ پڑھ لیا جاتا ہے اور جب یہی طالب علم انجینئر بن جاتا ہے تو اس کی بنائی ہوئی عمارت اچانک ڈھ جاتی ہے اور مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کا زیاں بھی وقوع پزیرہوتا ہے۔
بظاہر آج کا انسان فارغ البلاغ اور خوشحال نظر آتا ہے لیکن حق تو یہ ہے کہ سکونِ قلب سے یکسر محروم ہے، قرار دل کی تلاش میں مارا ماراپھرتا نظر آرہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں ذہنی سکون میسر آئے گا توکیسے؟ ابھی تو اس شہر کی بہو کی آنکھ میں گرم تیل چھڑکنے کے مناظررقصاں ہیں۔ ابھی تو اس قوم کی بیٹی جنم لینے سے پہلے ہی ماں کی کوکھ میںسہمی و لرزاں ہے، ابھی تو کتنے والدین لاکھوں کی مالیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بالغ بیٹیوں کی شادیاں کرنے سے قاصر ہیں۔ ابھی تو ہم لوگ سِکوں کے غلام ہیں ،ابھی تو پیالے شہد کے بجائے زہرآب ہیں! جس شاخِ نازک پر ہم اپنا گھونسلہ بنانے جارہے ہیں، کہیں اس کا مقدر ٹوٹنا تو نہیں ہے؟ جس کشتی میں ہم سوار ہورہے ہیں اُس میں کہیں ایسا چھید تو نہیں جو ہماری نَیا کو ہی ایک دن لے ڈوبے گی؟ خالی اوپری سطح سے جینے کا طرز عمل بدل لینے سے انسان کے اندر حیوانی صفات بدل نہیں جاتیں۔ اس کے لیے ہمیںسنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کر کے عملی مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ دین کی طرف مائل ہوکر پیغمبر آخرالزمانصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ کو تھام لیں، جن کے بارے میں ایک مشہور و معروف مفکر جارج برناڈشاہ نے کہا ہے کہـ’’ اگر عالم انسانیت کو درپیش سماجی مسائل سے چھٹکارا پانا ہے تو مسلمانوں کے پیغمبر کی حیاتِ طیبہ اس کا بہترین اور واحد حل ہے۔‘‘ آئیں! آج عہد کرلیں کہ ہم اسی آخری داعی کی پکار پر لبیک کہیں اور دونوں جہانوں کے لیے اپنی زندگیوں کو سنوار کر راحتِ قلب پائیں۔
(رابطہ۔ 7006769276)