عشرۂ ذوالحجہ۔ اللہ کا ایک بہترین تحفہ

(فکر وفہم)

شگفتہ حسن
ذوالحجہ کا مہینہ ان چار مہینوں میں سے ہے، جن کو اللہ تعالی نے’’اشہرحُرُم ‘‘یعنی حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں فرمایا: بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتہ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ ( التوبہ،آیت نمبر:۳۶)
ذوالحجہ اسلامی سال کا آخری قمری مہینہ ہے۔ اس مہینے کی اپنی عظمت اور انفرادیت ہے۔ یہ مہینہ سال کے اہم اور بافضیلت مہینوں میں سے ایک ہے جس کی فضیلت پر قرآن و سنت میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ اس مہینے کو عربی میں ’’ذوالحجہ ‘‘یا ’’ذی الحجہ ‘‘کہا جاتا ہے۔ ذی الحجہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے، جس کے معنی ’’قمری سال کا آخری مہینہ‘‘ اور ’’حج کے مہینہ‘‘ کے آتے ہیں۔ چونکہ اس مہینے میں فریضۂ حج ادا کیا جاتا ہے۔ ’’الحجہ‘‘ کے معنی’’سال‘‘ کے بھی آتے ہیں، چونکہ اس ماہ کے اختتام پر ایک ہجری سال مکمل ہوتا ہے، اس لیے اسے ذی الحجہ اور ذوالحجہ کہا جاتا ہے۔ ذی الحجہ وہ عظیم الشان مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کی وہ آیت نازل فرمائی، جس میں تکمیل دین کی نعمت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اور حضرت عمر ؓ کے قول کے مطابق یہ آیت ذی الحجہ کے مہینے میں عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر ہمیشہ کے لیے پسند کرلیا۔ (سورۃ المائدۃ:آیت نمبر:3) بالخصوص ذو الحجہ کے ابتدائی دس ایام (ایام معلومات) بڑی فضیلت کے حامل ہیں۔ ان کے پہلے دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال بہت زیادہ پاکیزہ اور ثواب والے ہیں، ان دنوں میں اعمال صالحہ کا ثواب سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذو الحجہ کے دنوں سے افضل کوئی دن نہیں ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں کو فضائل و برکات، خصوصیت اور فضیلت و عظمت بخشی ہے اور فضائل و برکات کا یہ سلسلہ رمضان المبارک سے ہی شروع ہوتا ہے کیونکہ روزے کی عبادت ختم ہوتے ہی حج کی عبادت شروع ہوتی ہے۔ یہ دن رحمتوں اور برکتوں والے ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کثرت سے کی جاتی ہے کیونکہ ان دنوں میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے اور ان دنوں اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ یہ عشرہ یکم ذو الحجہ سے شروع ہوتا ہے اور دس ذو الحجہ پر ختم ہوتا ہے۔ ان دنوں کی عبادت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر کی ابتدائی آیات میں، ان دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بات کا یقین دلانے کے لئے قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں جن راتوں کی قسم کھائی ہے ،اس کے بارے میں مفسرین نے تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، ان سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ اس سے ان دس راتوں کی عزت، عظمت اور حرمت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ان دس ایام کی اہمیت اور فضیلت کو بیان فرمایا کہ ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور طاق سے مراد یوم عرفہ ہے اور جفت سے مراد عید الاضحی کا دن ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں ہیں جن میں نیک عمل اللہ تعالی کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہو، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا : یارسول اللہؐ ! کیا اللہ تعالی کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالی کی راہ میں جہاد بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان ومال لیکر جہاد کے لئے نکلا اور پھر ان میں سے کوئی چیز لیکر واپس نہیں لوٹا یعنی شہید ہوگیا( صحیح البخاری و سنن الترمذی)یعنی ذی الحجہ کے پہلی دس تاریخ میں جو اعمال انسان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کو اتنے پسند ہیں کہ باقی دوسرے دنوں میں کیے گئے اعمال محبوب نہیں ہے۔ گویا ان دنوں میں کیے گئے اعمال سب سے افضل ہیں کیونکہ ان دنوں کو اللہ تعالیٰ نے سب سے افضل قرار دیا ہے۔ اور ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی شخص ان ایام میں سے ایک دن روزہ رکھے تو ایک روزہ ثواب کے اعتبار سے ایک سال کے روزوں کے اور رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے زیادہ بہتر اور افضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہےاور لیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا کہ ذی الحجہ کے دس دن افضل ہیں یا رمضان المبارک کے آخری دس دن؟ تو آپ نے جواب دیا: ذی الحجہ کے دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری عشرے کی راتیں عشرہ ذی الحجہ کی راتوں سے افضل ہیں۔
عشرہ ذوالحجہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وہ تمام عظیم عبادات اکھٹی ہو جاتی ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوۃ، حج، رات کا قیام اور قربانی اور عبادات کا یہ اجتماع باقی ایام میں نہیں ہوتا۔ البتہ جو عبادات سال بھر کے باقی ایام میں انجام نہیں دی جا سکتیں ان کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے ماہ کو منتخب فرمایا ہے۔ مثلاً حج اور قربانی ایسی عبادتوں میں شامل ہیں جو ان ایام کے علاوہ دوسرے ایام میں انجام نہیں دی جا سکتیں۔ ان دو عبادتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے عشرہ ذوالحجہ کا مہینہ مقرر کیا ہے۔ حج کے ارکان مثلاً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں کہ اگر انہی ایام میں انجام دیے جائیں، تو عبادت ہے اور ان کے علاوہ دوسرے دنوں میں اگر کوئی شخص عرفات میں دس دن ٹھہرے تو یہ کوئی عبادت نہیں، سال کے بارہ مہینے منیٰ میں کھڑے رہنا کوئی عبادت نہیں ،اسی طرح سال کے دوسرے ایام میں کوئی شخص جاکر جمرات پر کنکریاں مارے تو یہ کوئی عبادت نہیں، تو حج جیسی اہم عبادت کے لیے اللہ تعالی نے ان ہی ایام کو مقرر فرما دیا کہ اگر بیت اللہ کا حج ان ہی ایام میں انجام دو گے، تو عبادت ہوگی، اور اس پر ثواب ملے گا۔ اور قربانی کے لیے اللہ تعالی نے ذی الحجہ کے تین دن یعنی ۱۰,۱۱,۱۲ تاریخ مقرر فرما دیئے ہیں، ان ایام کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کی عبادت کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا، البتہ اگر کوئی شخص صدقہ کرنا چاہے، تو بکرا ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کر سکتا ہے۔ دوسری عبادتوں کا یہ حال ہے کہ انسان فرائض کے علاوہ جب چاہے نفلی عبادت کرسکتا ہے۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزے، نفلی صدقہ اور رات کا قیام شامل ہے۔ (مضمون جاری ہے ،بقیہ کل کے شمارے میں)