عزت نفس اور خود دادی فکر انگیز

شیخ بلال

عزت ِنفس اور توقیرِ ذات بہت قیمتی چیز ہوتی ہے اور یہ زندگی کا لازمی حصہ بھی ہے ۔ لیکن جب تک ایک انسان اپنی عزت اور توقیر کا خود خیال نہیں رکھتا، تب تک دوسروں کی نظروں میں بھی وہ عزت و توقیرکے قابل نہیں ہوتا۔دنیا میں عزت سے جینے کا سب سے آسان اور شرطیہ طریقہ یہ ہے ہم جو کچھ ظاہرہ طور پر نظر آنا چاہتے ہیں،ویسے ہی باطنی طور پر بھی ہوں،بہتر یہی ہے کہ ہم عزت و احترام کے قابل بنیں۔ بات در حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ہم کہیںراستے میں پھسل کر گرجاتے ہیں تو ہم اُس وقت اپنے جسم اور اپنے کپڑوں کو بھول جاتے ہیں۔ ہمیں کپڑے خراب ہونے اور کسی طرح کی چوٹ لگنے کا بھی خیال نہیں رہتا ، ہم اُس وقت درد کو بھی نظر انداز کرکے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں عزت نفس کو کوئی نقصان تو نہیں ہوا ، کہیں کوئی دیکھ کر ہنس تو نہیں رہا۔گویا زندگی ہر شخص کو عزیز ہے لیکن اس کے لئےعزت زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ہم جب تک اپنی عزت و توقیر کا خود خیال نہ رکھیں، ہم دوسروں کو بھی عزت نہیں دے سکتےہیں ۔ کہاں پر کیا بولنا ہے؟ کس مجلس میں کیسے رہنا ہے ؟کیسے چلنا ہے ؟کون سا کام کرنا ہے؟ کون سا کام نہیں کرنا ہے؟ ان سب باتوں کا خیال اس احساس کے تحت غالب ہو کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور انسان کاعزت و وقار بہت بلند ہے۔ ہر انسان یہ توقع کرتا ہے کہ اسے دوسرے لوگ عزت کریں تو میرا تجربہ یہی ہے کہ پہلے ہمیں خود اپنی عزت کرنی چاہیے اور یہ احساس ہونا چاہیے کہ عزت نفس کیسے برقرار رکھی جاسکتی ہے، پھر دوسروں سے ایسی توقع رکھنی چاہیے۔ایک عرب شاعر نے کہا تھا: من لا یکرم نفسہ لا یکرم۔ یعنی ’’جو اپنی عزت و تکریم آپ نہیں کرتا اس کی عزت و تکریم نہیں ہوتی۔‘‘عزت نفس کو ہم علامہ اقبال کے الفاظ میں ’خودی‘ یا خوداری بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ خوبی انسانی زندگی کا لازمہ ہو تو وہ باوقار، بامقصد اور عزم و حوصلے کی زندگی جینے کے قابل ہوتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو انسان خود اپنی ہی نظروں میں گر کر احساسِ ندامت اور ذلت کے ساتھ جیتا ہے۔یہ خوبی بچوں میں ابتدائی عمر ہی سے پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ بچے کا احترام کیا جائے اور اسے عزت دی جائے اور یہ احساس دلایا جائے کہ وہ عزت و احترام کا مستحق ہے، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اُس سے یہ حق چھین کر اس کی خودداری اور وقار کو ٹھیس پہنچائے۔جو بچے اس تصّورکے ساتھ پروان چڑھتے ہیں، وہ خوددار، حوصلہ مند اور جدوجہد پر آمادہ کار رہتے ہیں۔ مغلوبیت و پسماندگی اور دوسروں کے سہاروں پر زندگی کا انحصاررکھنے کے بجائے جہدوعمل کے ذریعہ اپنے راستے خود بناتے ہیں اور حقیقت میں ایک مسلمان کی زندگی میں یہی مطلوب و مقصود بھی ہے۔
حاصل کلام :عزت نفس کے بغیر آپ کو فخر نہیں ہو سکتا، جو کہ بہت اہم بھی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ زندگی میں کیا ہوتا ہے، اگر آپ جانتے ہیں کہ آپ نے چیزوں کو بہتر بنانے کے لیے پوری کوشش کی ہے، تو یہی سب سے اہم ہے۔ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیںکہ عزت نفس کے سوا محبت بھی ایک ایسا جذبہ ہے ،جس کے مجروح کر دئے جانے پر انسان اپنے آپ کو حقیر جاننے لگتا ہے۔
عزت نفس زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے اور یہ صرف آپ کی ہی مدد نہیں کرتا، کہ آپ دنیا سے کیا چاہتے ہیں بلکہ یہ دوسروں کے ساتھ آپ کے تعلقات کو زیادہ مضبوط بناتا ہے۔ عزتِ نفس کے بغیر، اپنی یا دوسروں کی کوئی عزت نہیں ہے، اور ایک دوسرے کی عزت کے بغیر، معاشرے کی کوئی وقعت نہیں۔اگر آپ اپنے لیے زندگی سے مزید کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو یقیناً آپ کے پاس اتنی عزت نفس ہے جو آپ کو صحیح راستے پر گامزن کرےگا اور اپنے مقاصد کے حصول پر نظر رکھے گا۔ آپ کی عزت نفس آپ کو بلندی پر چڑھنے کی طاقت دے گی اور آپ کے فخر کو برقرار رکھنے میں آپ کی مدد کرنے میں انمول ہوگی۔
[email protected]