عزتِ نفس انسان کو قابلِ احترام بناتی ہے فہم و فراست

سیدہ عطیہ تبسم
کائنات کی کسی بھی مخلوق کو عزت ورثے میں نہیں ملی، سوائے انسان کے۔  انسان کو پیدائشی طور پر معزز ترین مخلوق بنا کر دنیا میں بھیجا گیا ۔ جب آدم کو رب العزت نے تخلیق کیا تو فرشتوں کو تعزیماً آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سجدے نے آدم کو روزِ اول سے ہی اشرف المخلوقات کا خطاب عطا کیا، پھر اللہ نے اس عزت افزائی کو سجدے تک محدود نہیں رکھا بلکہ پوری جنت عطا کر دی۔ مگر ایک حد مقرر کی جو اس شجر ممنوعہ پر جا کر ختم ہوتی تھی، جس کو چھونے سے آدم کو منع کیا گیا تھا۔ شیطان نے جب آدم کو بہکایا اور اس سے وہ لغزش ہوگئی کہ آدم نے حدود کو توڑا ،جس کے نتیجے میں اُسے جنت سے دنیا میں اُتارا گیا۔ اس دنیا میں جو ادنیٰ ہے، جس کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مکھی کے پَر کے برابر بھی نہیں ہے۔ جہاں آدم کو سجدے کے لئے فرشتے نہیں دیئے گئے بلکہ دنیا میں اسے عزت کمانے کے لئے بھیجا گیا۔ اسے اپنے علم و ہنر سے دنیا کو فتح کرنا تھا ،حدود کی پاسداری کرنی تھی، تب جاکر اُسے وہ کھوئی ہوئی عزت کی وراثت واپس مل سکتی تھی۔
محبت دنیا کا سب سے اعلیٰ مثبت جذبہ ہے، مگر عزت کو محبت پر مقدم کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ محبت کے بغیر زندگی بسر کی جا سکتی ہے مگر عزت کے بغیر آدم انسانیت سے ہی بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ عزت محبت کی پہلی سیڑھی ہے۔ ہمیں جس سے محبت ہوتی ہے، ہم اس کی تعظیم کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ یہ عزت انسان کو بلاوجہ اور بے مول عطا نہیں کی جاتی بلکہ اُسے کمانی پڑتی ہے، بانٹنی پڑتی ہے، تب جا کر اس کو کچھ مقدار ِعزت واپس حاصل ہوتی ہیں۔ دنیا میں کئی رشتے ہیں، ہر رشتے کو عزت دینے کا ایک الگ طور طریقہ ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ عزت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ۔ دراصل عزت کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ حقدار وہ رب العزت ہے جس نے انسان کو معزز بنا کر دنیا میں بھیجا ۔ نور سے بنی ہوئی مخلوق سے انسان کو تعظیماً سجدے کروائے ۔ اللہ کے بعد جو ہماری عزت افزائی کا سب سے زیادہ حق دار ہے وہ ہمارا اپنا نفس ہے۔ چونکہ ہمارے نفس کو اللہ نے بہت معزز بنایا ہے، ہمیں ویلیو دی ہے، تو ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہم اپنی تذلیل کرتے رہیں ۔ ہم اپنی عزت نفس کو مجروح کرتے پھریں ،یا کسی اور سے کرائیں۔ اپنی عزت نفس جس انسان کو عزیز نہیں، وہ اشرف المخلوقات کے اعزاز سے دستبردار ہوجاتا ہے، وہ ایک عام مخلوق بن کر زندگی گزارتا ہے۔ ایک ایسی مخلوق جس پر دنیا لعنت و ملامت کرتی رہتی ہے۔
عزتِ نفس سے انسان کی وہ طے کردہ حدود ہوتی ہیں، جب وہ اپنی مرضی سے اپنے لئے مقرر کرتا ہے ۔ کچھ ایسی ویلیوز (values)، کچھ ایسے طور طریقے جو اسے باقیوں سے منفرد بناتے ہیں، جو اس کی عزت کا باعث بنتے ہیں، یہی تو عزتِ نفس کا پہلا اور سب سے عظیم مرحلہ ہے۔ دور حاضر میں انسان نے اپنا وقار اسی لیے کھویا ہے کیونکہ اس نے ایک ایسے فریڈم (freedom) کو اپنا طریقۂ زندگی بنایا ہے جہاں نہ ویلیوز ہیں نہ کوئی حدود، جہاں نہ اپنی عزتِ نفس کا کوئی پاس ہے نہ کسی دوسرے کی۔ اپنی عزت نفس کو جاننا اور اس کا تحفظ کرنا ایک بہت پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ عورت چونکہ زیادہ حساس ہوتی ہے، اس کے لئے عزتِ نفس کا تحفظ زیادہ اہم اور مشکل ہو جاتا ہے ۔ ہر لڑکی کو اپنے ارد گرد ویلیوز (values) کی ایک ایسی دیوار کو تعمیر کرنا ضروری ہے جس کو وہ خود بھی کبھی پار کرنے کی جرأت نہ کرے ۔ اس کے دوست کیسے ہونے چاہیے، اس کو کس سے ملنا ہے، کب ملنا ہے اور کیسے ملنا ہے۔ وہ ان سب معاملات میں ذہانت سے کام لینے والی ہونی چاہیے۔ اس کی زندگی رنڈن (random) نہیں پلانڈ (planned) ہونی چاہیے۔ جہاں اس کی عزتِ نفس کی قدر نہیں وہ محفل ایک انسان کے لئے خاص طور پر ایک لڑکی کے لئے کسی ماتم داری سے کم نہیں ہوتی ۔ وہاں اس کی عزتِ نفس کا جنازہ نکل رہا ہوتا ہے اور اگر وہ یہ چپ چاپ برداشت کر رہی ہے۔ تو وہ دور جدید میں بھی دورِ جاہلیہ کی پیروکار ہے ۔ یہ مخلص جذبہ، یہ اصول و ضوابط یہی تو اصل فریڈم ہے، جہاں آپ اپنی ویلیوز پہ زندگی بسر کرنا جانتے ہیں ، جہاں آپ کے اپنے طے کردہ اصول اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ کسی دوسرے کو دخل دینے کی جرأت ہی نہیں ہوتی ہے۔
دور حاضر کا ایک سانحہ یہ ہے کہ عزتِ نفس کو اکثر اَنّا سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ اَنا اور تکبر ابلیس کا اثاثہ ہے اور عزت نفس اشرف المخلوقات کی وراثت ہے۔ اَنّا میں انسان گرتا ہے جبکہ عزتِ نفس انسان کو بلند کرتی ہے۔ یہ عاجزی ، انکساری اور اخلاقیات سے لبریز ہوتی ہے ۔ یہ تو ہماری زندگی کو از سر نو ترتیب دیتی ہے۔ ہماری پریورٹی لسٹ (priority list) میں جو سب سے اونچی پریورٹی ہونی چاہیے، وہ عزتِ نفس ہے۔ جب ہم اس کو اپنی جان اور مال سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں تب ہم عزت نفس کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی ویلیوز پر آخری دم تک جمے رہنا آسان نہیں ہے ۔ اس جدوجہد میں ہم اپنوں کو کھوتے ہیں ۔ کبھی کبھی ہمارے احباب ہماری ویلیوز کے رقیب بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوست چھن جاتے ہیں ، محبتیں غارت ہو جاتی ہیں اور کیا کچھ ہے جو اس جنگ میں ہارنا نہیں پڑتا ۔ تو کیا ہمیں اپنی ویلیوز سے کمپرومائز (compromise) کر لینا چاہیے یا ہار مان لینی چاہیے۔
نہیں!  ہرگز نہیں۔ جب بھی انسان اپنی عزتِ نفس کا حق ادا کرتا ہے، اسے اس کی کھوئی ہوئی عزت کی وراثت لوٹائی جاتی ہے۔ یہ آزمائشیں اور مشکلات تو عارضی ہوتی ہیں ، جو اس کے صبر و تحمل کو آزمانے کے لئے بھیجی جاتی ہیں۔ تھوڑی دیر سے سہی، تھوڑے مسائل کے بعد سہی ۔ مگر ایک دن دنیا اس کی تعظیم میں سجدہ ضرور ادا کرتی ہے، اس کی ویلیوز کو سلام کرتی ہے۔ اس کے مقدر میں وہی سجدے ہوتے ہیں جو کبھی فرشتوں نے آدم کو کئے تھے۔