عرب اور عجم کے درمیان تاریخی پیش رفت ! سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے روابط عالم اسلام کے لئےخوش آئند

عادل فراز

ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی و معاشی روابط کا از سرنوآغاز ہواہے۔دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میںجاری سردمہری اب ماند پڑنے لگی ہے ۔چین نے روابط کی بہتری میں ثالثی کا کردار اداکیا ،جس سے خطے میں چین کی سفارتی حیثیت کابھی اندازہ ہوجاتاہے ۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت تعلقات میں تلخی درآئی تھی جب سعودی حکومت نے شیعہ مذہبی رہنما آیت اللہ شیخ باقرالنمر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا تھا۔اس واقعہ کے علاوہ دونوں ملکوں کے روابط میں کشیدگی کے کئی دوسرے وجوہات بھی ہیں جن میں ایک اہم وجہ استعماری طاقتوں کی فتنہ گری بھی ہے۔استعمار نہیں چاہتاکہ مسلمان حکومتیں باہم اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا الگ فرنٹ قائم کریں ۔اس نے اسلامی ملکوں کے درمیان نفرت پاشی کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ خطے میں کشیدگی کو برقراررکھاجاسکے ۔

 

خاص طورپر مسئلہ فلسطین کو الجھانے اور یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کروانے میں مسلمان حکومتوں کا سیاسی استعمال کیا گیا ۔اسی طرح یمن ،شام ،عراق اور دیگر مسلمان ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام پیداکرنے کے لئے بھی انہیں اگلی صفوں میں رکھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ملک ایک دوسرے کےدشمن بنتے گئے اور نقصان تنہا عالم اسلام کا ہوا۔
چین نے دونوں ملکوں کے روابط کی بہتری میں نمایاں کردار اداکیا ،جس کی بناپر علاقائی سطح پر چین کی حیثیت مزید مضبوط ہوئی ہے ۔ایران اور چین کے درمیان پہلے ہی ایک مستحکم سیاسی اور معاشی رشتہ قائم ہوچکاتھا ۔چین نے ایران میں تقریباً چارسو ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی کی ہے ،اسی طرح ایران نے چین کے ساتھ دیرپا تعلقات کی پائیداری کے لئے ۲۵ سالہ تاریخی معاہدہ کیاہے ۔ایران اور چین کی دوستی علاقائی سطح پر بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جس وقت امریکہ اور اس کے حلیف ممالک چین کے معاشی اور اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان کررہے تھے ،اس وقت ایران اور چین ایک دوسرے کے ساتھ معاشی،اقتصادی،تکنیکی اورتوانائی کے شعبوں میںمعاہدہ کررہے تھے ۔چین اور ایران کےدرمیان اعتماد کی بنیادیں بہت مستحکم ہیں، اسی بناپر اس نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہت کم مدت میں دوستانہ روابط استوارکئے ہیں ۔یوں تو دونوں ملکوں کے درمیان ایک زمانے سے مذاکرات ہوتے آرہے ہیں لیکن ان کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا ۔لیکن چین کی ثالثی کی بنیاد پرتوقع کے برخلاف بہت کم مدت میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے،جس نے عالمی سیاست مداروں کو ششدرکردیاہے ۔ چینی صدر کی موجودگی میں دونوں ملکوں نے سفارت کاری کے آغاز کااعلان کرکے پوری دنیا کو چونکادیا۔خاص طورپر اسرائیل اس اعلان پر سوگ میں ہے کیونکہ دو بڑی مسلمان طاقتوںکی دوستی اس کے لئے خوش آیند نہیں ہے ۔اس پریشانی کی بنیادی وجہ چین کا بڑھتا ہوا دائرۂ اثر بھی ہے ۔روس اور ایران کے درمیان پہلے ہی اچھے تعلقات قائم ہوچکے تھے جن کا اثر ہمیں شام اور عراق میں بھی نظر آیا ۔حال ہی میں روس اور یوکرین جنگ کے دوران بھی دونوں ملکوں کے اتحاد کے بہترین مظاہر دیکھنے میں آئے ہیں ۔لیکن غرب ایشیا میں چین کا داخلہ سب کے لئے حیران کن ہے ۔خاص طورپر امریکہ اوراس کے حلیف ممالک گھبرائے ہوئے ہیں ۔کیونکہ علاقے کی بڑی طاقتیں ان کے خلاف متحد ہورہی ہیں ۔ظاہر ہے اس اتحاد کا عالمی اثر بھی ظہور میں آئے گا ،جس نے سب کو تشویش میں ڈال رکھاہے ۔
اس اقدام کے ذریعہ چین نے علاقے میں اپنی برتری کا احساس کروایاہے ۔چین جو مسلسل ناگفتہ بہ حالات میں معاشی و اقتصادی ترقی کی طرف گامزن ہے ،مستحکم سیاسی طاقت کے طورپر بھی ابھرکرسامنے آیاہے ۔اس معاہدہ کے بعد اس کی حیثیت ’امن بردار‘ کی ہوگی ،جسے اب خواستہ و نخواستہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔دوسری طرف چین کی مسلسل معاشی ترقی عالمی طاقتوں کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے ۔چین نے ایشائی ممالک تک تجارتی رسائی کے لئے جس طرح زمینی راستوں کو ہموار کیاہے ،اس نے علاقے میں چین کی حیثیت کو بڑھایاہے ۔گویا جس وقت دنیا مختلف طرح کی جنگوں کی زد میں ہے ،چین خاموشی کے ساتھ معاشی ترقی کے راستے پر گامزن ہے ۔اسی دوران اس نے دوبڑی طاقتوں کے درمیان امن معاہدہ کرواکے علاقے میں کھلبلی مچادی ہے ۔گوکہ ہرکسی نے اس دوستی کا استقبال کیاہے خواہ و ہ اقوام متحدہ ہو یا امریکہ ۔ناراضگی کا اظہار صرف اسرائیل نے کیاہے ،جو توقع کے برخلاف نہیں ہے ۔
سعودی عرب کے ساتھ ایران کا معاہدہ دوطرفہ مفاد کے تحت وجود میں آیاہے ۔سعودی عرب کی نگاہیں علاقائی صورتحال پر مرکوز تھیں ۔ایران نے جس طرح خلیج فارس اور غرب ایشائی ممالک میں اپنی سیاست کا لوہا منوایا ،اس نےنا صرف مسلمان ممالک کو متاثر کیابلکہ عالمی طاقتوں سے بھی اپنی حیثیت کو منوایاہے ۔خاص طور پر شام ،لبنان،یمن اور عراق میں جس طرح ایران نے اپنی سیاسی پالیسیوں کو نافذ اور مستحکم کیا اس کی نظیر نہیں ملتی ۔لبنان میں سیاسی اور معاشی بحران کو خم کرنے میں ایران نے پوری کمک پہونچائی ۔آج لبنان میں عوام کو جو بنیادی سہولیات مہیاہیں، اس کی فراہمی ایران سے ہورہی ہے ۔خاص طورپر ایرانی تیل لبنان کی مارکیٹ میں مرکزیت حاصل کررہاہے ۔شام میں بشارالاسد کی حکومت کا استحکام ایرانی سیاست کے مرہون منت ہے ۔ایران نے جس طرح شام میں داعش اور النصرہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی اور اپنے مطابق حکومت کی تشکیل کروائی ،یہ کارنامہ علاقائی سیاست میں بے نظیر تھا ۔شام میں تنہا ایران موجود نہیں تھا بلکہ روس ،ترکی ،سعودی عرب ،اسرائیل اور امریکہ کی حلیف فوجیں اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود تھیں ،لیکن ایران نے عالمی طاقتوں کے حلیف ممالک کی موجودگی میں اپنی سیاسی حکمت عملی اورفوجی طاقت کا لوہا منوایا۔اسی طرح عراق میں ایران نے مختلف فوجی طاقتوں کی موجودگی کے باوجود عراقی عوام کے قلوب کو مسخر کیا اور حکومت کی تشکیل میں اہم کردار اداکیا ۔عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا میں بھی ایران نے اہم رول نبھایا،یہ انخلا تاحال جاری ہے ۔یمن میں سعودی حمایت یافتہ حکومت کی تشکیل کوروکنا اور مزاحمتی تنظیموں کو عالمی طاقتوں کے سامنے کھڑا کردینا ایران کاہی کمال تھا ۔آج حوثی خطے کی اہم مقاومتی تنظیموں میں شامل ہیں ۔علاقائی سطح پر حوثیوں نے سعودی عرب کی سیاسی پالیسیوں کو بری طرح شکست دی ہے ،جس کے پس پردہ ایرانی پالیسیوں کا ہاتھ رہاہے ۔مسئلہ فلسطین پر ایران کا موقف کسی سے چھپاہوانہیں ہے ۔اسرائیل کے خلاف حماس جیسی مقاومتی تنظیم کو مضبوطی دینے میں ایران کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اب جبکہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ روابط استوارہوئے ہیں تو امید کرتے ہیں کہ یمن اور فلسطین کی سیاسی صورتحال میں بھی تبدیلی رونما ہوگی ۔اسی طرح شام اور عراق کے سیاسی حالات میں بھی استحکام آئے گا کیونکہ سعودی عرب دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ بھی اب دوستانہ روابط کو استوارکرے گا ،جس کی رہنمائی ایران ،روس اور چین کرسکتے ہیں ۔
لاریب عالمی سیاست پربھی دونوں ملکوں کے روابط اثرانداز ہوں گے۔مشرق وسطیٰ تو بہرصورت اس اتحاد کے اثرات کے دائرے میں ہے ۔اس کی ایک مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے ایک دفاعی نظام خریدنے کے معاہدہ کو منسوخ کردیاہے ،کیونکہ اسرائیل میں نتین ہاہو کی حکومت مسلسل تنزلی کا شکار ہے ۔اسرائیل مسلسل سیاسی بحران سے دوچارہے جس میں نتین یاہو اور ’’ جیوش پور‘‘ پارٹی کے انتہاپسندوںکا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔نتین یاہو کا متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی منسوخ کیاگیاہے ،جس کی تاحال تازہ تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا۔ان تمام سیاسی تبدیلیوں کے مد نظر کہاجاسکتاہے کہ ایران اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات اسرائیل اور اس کے حلیف ممالک کے لئے اچھی نوید نہیں ہے ۔اس کے برخلاف عالم اسلام اس معاہدہ سے بے انتہا خوش اور پرامید ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان اچھے روابط بہت سے سیاسی اور اقتصادی مسائل کےحل کا سبب ہوں گے ۔اس طرح مسلمان ملک متحدہوکراپنا ایک الگ اقتصادی و معاشی نظام تشکیل دے سکتے ہیں ،جس میں ڈالر کی حیثیت کو ختم کیا جاسکتاہے ۔مسلمان ملکوں کا اتحاد عالمی سطح پر ’’اسلاموفوبیا‘‘کی کمی کا باعث بھی بن سکتاہے ۔اگر تمام مسلمان ملک متحد ہوکر عالمی طاقتوں کا مقابلہ کریں اور اپنے برملا موقف کا اظہار کریں تو مسلمانوں کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔البتہ مسلمان ملک آپسی تعلقات میں خلوص اور ایثار کا ثبوت پیش کریں ،تو کچھ بھی ناممکن نہیں!
ایک بڑی خبریہ ہے کہ سعودی فرمانروا نے ایرانی صدر کو دورے کے لئے مدعوکیاہے ۔ایران کی طرف سے بھی اس دعوت کا خیر مقدم کیاگیاہے ۔حالاں کہ ابھی اس دورے کی تاریخوں اور تفصیلات کا اعلان نہیں ہواہے ،لیکن یہ دعوت ہی اپنے آپ میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا عندیہ ہے ۔اگر دونوں ملک اسی طرح روابط میںگرم جوشی کا اظہار کرتے رہے تو بہت جلد خطے کی سیاسی تصویر بدلے گی ۔ساتھ ہی شیعہ اور سنّی مسلمانوں کے درمیان وحدت کی تحریک کو تقویت ملے گی ،جس کی بے حد ضرورت ہے ۔
(رابطہ۔7355488037)
[email protected]