طلیق رشید کاسفر نامہ حج | ’’کشمیر سے فاراں تک ‘‘ کا اجمالی جائزہ تبصرہ

میر امتیاز آفرین

حج سفر نامے لکھنے کی روایت بہت پرانی ہے۔یہ سفر نامے نہ صرف تاریخی ریکارڈ کو محفوظ کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی انسانی احساسات کو بھی قارئین تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ سفرِ حج ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے اہم سفر ہے، جس کا ہر مرحلہ اپنے اندر معانی کا ایک جہان سموئے ہوئے ہے، اس کا ہر عمل رحمتوں اور برکتوں کی ایک انوکھی سوغات پیش کرتا ہے۔ یہ سفر ایک سنجیدہ انسان کو ان تجربات سے گزارتا ہے ہے کہ اس کے اندر کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا برپا ہوجاتا ہے۔ وہ دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے لگ جاتا ہے۔ وہ نیکیوں کا مجسم بن کر لوٹتا ہے اور وہ ایسا بن جاتا ہے جیسے اسے اسکی ماں نے ابھی جنا ہو۔
ابن بطوطہ، عبد الحق محدث دہلویؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، عبد الماجد دریا آبادیؒ، ابو الحسن علی ندویؒ، ممتاز مفتی جیسے معروف اہل قلم نے اپنے حج سفرنامے تحریر کئے ہیں جو آج بھی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں اور یہ روایت آج بھی جاری و ساری ہے۔ وادئ کشمیر میں بھی اسی طرح کئی حج سفر نامے لکھے گئے ہیں اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر حال ہی میں جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے فاضل قلمکار طلیق رشید صاحب کا سفرنامہ حج بعنوان ’’کشمیر سے فاراں تک ‘‘ شائع ہوا ہے۔
طلیق رشید صاحب ایک منجھے ہوئے قلمکار ہیں اور دینی علوم پر اچھی خاصی نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے 2017 میں حج کیا اور اس کے بعد حج کمیٹی کے ذریعے منعقد ہونے والے تربیتی پروگراموں میں بھی انہوں نے بطور حج مربّی اپنی خدمات پیش کیں۔اسی دوران حج ہاؤس ممبئی میں میری ملاقات ان سے ہوئی۔2018 میں خوش قسمتی سے انہیں بطور خادم الحجاج حرمین شریفین میں عازمین کرام کی خدمت کرنے کا موقع ملا ۔’’کشمیر سے فاراں تک ‘‘دراصل اسی سفر کی روداد ہے جس کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے صفحہ قرطاس پر اتارا ہے۔
عام طور پر حج سفر نامے دو مقاصد کے تحت لکھے جاتے ہیں۔ پہلی قسم کے سفرنامے زیادہ تر حالات، واقعات اور مشاہدات پر ارتکاز کرتے ہیں۔ان میں قارئین کو پڑھنے کو ملتا ہے کہ مصنف نے کیسے حج کیا ،اس سفر کے دوران اس نے کیا دیکھا، ان چیزوں کو دیکھ کو اس کے اندر کون سے احساسات و جذبات پیدا ہوئے۔
دوسری قسم کے حج سفر ناموں میں مصنف کے زیر نظر دوسرے عازمینِ حج کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ایسے سفرناموں کی حیثیت ایک گائیڈ بک کی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’کشمیر سے فاراں تک ‘‘میں مصنف نے مذکورہ بالا دونوں مقاصد نظر میں رکھا ہے۔ کل ملا کر مصنف کا سفرِ حج 46 دنوں کا رہا اور اسی کے پیش نظر انہوں نے 300 صفحات پر مشتمل اس سفرنامے کو 46 قسطوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر قسط کے اوپر عنوان قائم کردیا ہے جس سے کتاب کی تفہیم میں کافی مدد ملتی ہے۔
یہ سفر نامہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں مصنف نے اپنی رودادِ سفر کو بطور حج گائیڈ پیش کیا ہے، وہ نہ صرف حجاج کرام کی مخصوص ذہنیت اور مشکلات پر چشم کشا تبصرے کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی انتظامی امور پر گہری نظر رکھنے کی بدولت کچھ تلخ حقائق سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ عام عازمینِ حج کی شکایات اور غیر حقیقت پسندانہ توقعات کا بھی اچھا نوٹِس لیتے ہیں
اس طرح سے دونوں نقطہ ہائے نگاہ ایک قاری تک پہنچ جاتے ہیں۔ چونکہ مذہبی و دیگر معاملات پر مکمل حکومتی کنٹرول ہونے کی وجہ سے حرمین شریفین میں دینی و دنیاوی معاملات کے حوالے سے بہترین ڈسپلن پایا جاتا ہے اسلئے مصنف اس ڈسپلن کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور اس پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے بجائے اسے پورے عالمِ اسلام کے لئے بطورِ مثال تجویز (recommend)کرتے ہیں۔وہ حالات و واقعات سے سبق حاصل کرتے ہیں اور حج کا ارادہ رکھنے والوں کو گرانقدر مشوروں سے نوازتے ہیں۔مصنف کی ایک مخصوص مکتبہ فکر کے ساتھ فکری ہم آہنگی رکھنے کی وجہ سے کتاب کو ان کی مذہبی فکر سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ قبر پرستی اور رسم پرستی کا رد کرتے ہوئے ناصحانہ لہجہ اختیار کرنے کے بجائے کہیں کہیں پر انہوں نے مخالف فکر رکھنے والوں کے لئے طنزیہ انداز میں کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کئے ہیں جن سے احتراز کیا جاسکتا تھا۔ لیکن پھر بھی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عمومی طور پر انہوں نے اعتدال پر مبنی دعوتی اسلوب اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تحریر میں سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی بھی موجود ہے۔ پڑھتے پڑھتے وہ قاری کو حرمین شریفین کی پرکیف بہاروں کی سیر کو لے جاتے ہیں اور محظوظ کرتے ہیں۔ کتاب معلوماتی نوعیت کی ہے اور اس میں مکہ اور مدینہ میں پائے جانے والی مساجد، مقامات اور فقہی مسائل کے بارے میں کافی جانکاری دی گئی ہے۔ جابجا قرآن و حدیث سے حوالے پیش کئے گئے ہیں اور دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق قرآنی آیات اور احادیث نبویہؐ کو تخریج و تحقیق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس سے کتاب کے حسن میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے یہاں فرقہ پرستی اور مسلکی انتشار کے ماحول کا موازنہ حرمین شریفین کے پرامن ماحول سے کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ حرم مکہ ہو یا حرم نبویؐ، دونوں جگہوں پر میرے مشاہدے میں کچھ ایسی باتیں آئیں کہ میں نے اپنے مادر وطن میں اس مشاہدے کے مطابق کسی بھی مکتبہ فکر کے لوگوں کو عمل کرتے ہوئے نہ تو دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی سنا ہے، الاماشاء اللہ۔میری دائیں جانب دیو بندی مکتب فکر سے وابستہ ایک مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے، جبکہ میری بائیں طرف کوئی شیعہ پیروکار، اور میں خود ان دونوں کے بیچ میں حنفی نہ شیعہ، لیکن خطیب کے حاضر ہونے تک ہم تینوں محبت بھرے لہجے میں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔وہاں مسلکی اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی مسلکی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال نظر آتی ہے۔ دل میں تمنا جاگی کہ کاش اس مسلکی بھائی چارے کا پرتو ہمارے وطن کے فیس بکی مناظرے بازوں کی عقلوں پر بھی پڑجاتا۔‘‘
یہ سفرنامہ روایتی مذہبی ذہن رکھنے والے شخص کی قلبی واردات ہے جو اپنے مخصوص نقطہ نظر سے حالات و واقعات کو interpret کرتا ہے، ان کا تجزیہ کرتا ہے اور ہر لمحہ قاری کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ قارئین ان کے نظریات اور تعبیرات کے ساتھ مکمل اتفاق کریں مگر انہوں نے اپنے مشاہدات کو دیانت داری سے قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشاہدات کے قلمبند کرنے میں ممکن ہے کہ ان کا اپروچ کہیں کہیں پر selective نوعیت کا ہو اور نتائج برآمد کرنے میں ان کے pre-conceived notions کا عمل دخل ہو مگر کل ملا کر دیکھا جائے تو کتاب کافی دلچسپ ہے اور حج کا ارادہ رکھنے والوں کے لئے بالخصوص ایک گرانقدر سوغات ہے۔
Feedback [email protected]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔