صبر کے ستارے اظہار خیال

سیدہ عطیہ تبسم

’’اب میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ رہا ہے، بس اب اور نہیں۔۔۔ ‘‘ کتنی دفعہ ہم یہ جملہ دہراتے ہیں اور پھر اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم ابھی بھی صابر ہیں۔ جب راتیں لمبی ہو جاتی ہیں اور گھٹا ٹوپ اندھیرے مسلسل بڑھتے جاتے ہیں، کہیں کوئی روشنی کا ذریعہ نظر نہیں آتا، سیاہی غم یاس و ناامیدی چھا جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں بھلا کوئی کیسے مثبت سوچ کا سہارا لے کر صبر کا پیمانہ وسیع کر سکتا ہے؟
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کالی رات میں تنہا کسی صحرا میں کھڑے ہیں۔ اس کالی رات کے آتے ہی سب سے پہلے محبت کے وہ دعوےدار ہاتھ چھڑا کر چل دیتے ہیں، جنہوں نے کبھی نہ چھوڑنے کی قسمیں کھا رکھی تھیں۔ رشتے، ناطے، دوست، احباب جو شفق سے افق تک کے مناظر ہمارے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں، وہ اس رات کا حصہ بننا کبھی پسند نہیں کرتے ہیں ۔ اس ناپسندیدگی کے چلتے چند لمحوں میں ان کے لئے ہم بھی اجنبی بن کر رہ جاتے ہیں۔ شاید انہیں یہ فانی رات دائمی لگتی ہے، اس لئے وہ ہاتھ چھڑا کر چلے جاتے ہیں۔
یہ تنہائیاں، یہ آزمائشیں، یہ ویرانیاں، یہ خوف، یہ ملال اور یہ حزن ہر انسان کی زندگی کا ایک حصہ ہے۔چونکہ دن کے ساتھ رات بھی ہے اور گُلوں کے ہمراہ کانٹے بھی، مگر قدرت ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ یہ رات فانی ہے اور صبح آنے والی ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں اس صبح کے آنے کا انتظار اتنا گراں گزرتا ہے ہم پر ۔ کیوں انسان شکایتیں کرنے لگ جاتا ہے جبکہ محرومیاں اور یہ کالی راتیں اس کی تابناک صبح کا پیغام لے کر آتی ہیں۔ یہ نہ ہوتی تو صبح کا سورج طلوع نہ ہوتا ۔ جو رات دراصل ہمیں (recharge) ریچارج کرنے کے لیے آئی تھی ،ہم نے اسے دائمی سمجھ کر ہار مان لی ۔ وہ سیاہی تو چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ رُک جاؤ، تھم جاؤ، آنکھیں کھولو ،دیکھو کون اپنا ہے اور کون پرایا۔ یہ تو ہمیں وہ صابر بندہ بنانے آئی تھی، جس کے لئے عرش سے رحمتیں برستی ہیں، جس کی آنکھ تو نم ہوتی ہے مگر زبان۔۔۔۔ زبان ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کا ورد جاری رکھتی ہے۔
اکثر و بیشتر ہم اس رات کو رحمت کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔ ہماری نگاہیں اندھیرے میں لپٹی زمین پر مرکوز رہتی ہیں اور آسمان کے چمکتے ستارے ہمیں نظر ہی نہیں آتے ،جو راہ دکھانے کے منتظر تھے۔ جن کا اشتیاق تھا کہ ہم ان کی طرف متوجہ ہوں اور وہ ہمیں تسکین عطا کریں۔ وہ امید اور صبر کے ستارے ہماری رات کو مزین کرنے کے لئے ہی تو نمودار ہوئے تھے، مگر افسوس ہم نے ان کا تعاقب نہیں کیا ۔ بس مایوس ہو کر بیٹھ گئے، سو گئے کسی کونے میں یا پھر بھٹکتے رہے اندھوں کی طرح ۔ ان ستاروں کی چمک ہر سراب کی حقیقت واضح کر رہی تھی مگر ہم نے آنکھیں موند لیں یہ کہہ کر کہ ’’بس اب میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ رہا ہے، صبح کے آنے کا یقین ختم ہو چکا ہے گمراہی اور سیاہی نے گھیر رکھا ہے ‘‘۔
دراصل صبر کے ستارے صبح کی روشنی فراہم نہیں کرتے مگر صبح کی آمد میں اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ ان ستاروں کو تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوتا، یہ اسے کبھی رسوا نہیں ہونے دیتے۔ وہ جس نے برداشت کو صبر کا نام دے دیا اس کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے، اس کا یقین ڈگمگا سکتا ہے۔ صابر برداشت کرنے والے سے بہت عظیم اور جدا ہوتا ہے۔ وہ رات کی سیاہی سے خوفزدہ نہیں ہوتا، نہ ہی تنہائیوں سے ڈر جاتا ہے، وہ تو بس صبر کے ستاروں کا تعاقب کرتا رہتا ہے اور آخرکار سحر کو پا لیتا ہے۔ اس کی رات طویل ضرور ہوتی ہے مگر پرسکون اور مزین ہوتی ہے۔اس کو حزن ہوتا ہے اپنوں کی جدائی کا، مگر وہ شکوے کے بجائے شکر سے کام لیتا ہے۔ یہ صابر جب شاکر بن جاتا ہے تو اس کے درجات آسمانوں سے بھی بلند ہو جاتے ہیں۔ سلام ہو ایسے صبر و شکر کرنے والوں پر جن کے دل چھلنی ہوتے ہیں مگر زبان کبھی شکوہ کرنے کی جرأت نہیں کرتی۔
[email protected]