شہر میں ٹھوس فضلہ2030تک 3گنا بڑھنے کا امکان روزانہ 450میٹرک ٹن کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کیلئے سائنسی طریقہ موجود نہیں،سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پلان پر عملدر آمد نہ دارد

اشفاق سعید

سرینگر // سرینگر میونسپل حدود میں ٹھوس فضلہ کا حجم 2030تک 3گناہ بڑھ جائے گا لیکن اس کو سائنسی طور پر ٹھکانے لگانے کیلئے کوئی نیامنصوبہ نہیں ہے۔فضلہ ٹھکانے لگانے کیلئے غیر مناسب طریقہ کار اپنانے سے صحت عامہ اور ماحول پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔وادی میںیہ ایک روٹین بن چکی ہے کہ یہاں گھریلو، ہسپتالوں، صنعتی اداوں و دیگر جگہوں سے نکلنے والا فضلہ یا تو کھلے میں پھینکا جاتا ہے یا پھر اُس کو ندی نالوں اور جھیلوں کی نذر کیا جاتا ہے ۔اگرچہ محکمہ میونسپل حکام گاڑیوں کے ذریعے کچڑا جمع کرتے ہیں ،لیکن اس کو الگ طریقے سے چھانٹنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے ۔ماہرین کا کہنا فی الوقت گھریلو، صنعتی اور ہسپتالوں سے نکلنے و الے ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔جموں وکشمیر میں 2بڑے شہر جموں اور سرینگر ہیں، 78 (Statutory)قصبے ،2میونسپل کارپوریشن ، ، 78اربن لوکل باڈیز، ادھمپور ، پونچھ کٹھوعہ ، اننت ناگ ،بارہمولہ اور سوپور کی 6میونسپل کونسل کے علاوہ 72میونسپل کمیٹیاں شامل ہیں اور ہر ایک مختلف طریقوں سے کام کر رہے ہیں ۔ صرف سندربنی ،ڈوڈہ، بھدرواہ اور لیہہ میںٹھوس فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام ہے باقی کسی بھی شہر یا قصبہ میں اس کو ٹھکانے لگانے کیلئے کوئی بھی سائنسی طریقہ کار موجود نہیں ہے ۔

 

 

 

سرینگر میونسپل کارپوریشن کے سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ شہر میں روزانہ کل 450 میٹرک ٹن فضلہ نکلتاہے، جس میں سے 62 فیصد نامیاتی( ڈیگریبل) فضلہ ہے جبکہ باقی غیر نامیاتی نان (ڈرگریبل )ہے جس میں 7 فیصد پلاسٹک کا کچرا بھی شامل ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق شہر بھر میں 520 سے زائد کھلے ڈمپنگ پوائنٹس ہیں۔کشمیر یوینورسٹی میں شعبہ ڈزاسٹر منیجمنٹ کے سربراہ پروفیسر پرویز احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتاری سے ہورہی شہر کاری کے سبب وادی کو کچرے کابندوبست کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور اندازہ ہے کہ کچرے کا حجم 2030 تک 4گناہ زیادہ بڑھ جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت سرینگر میں ہر ماہ 13,000 میٹرک ٹن سے زیادہ ٹھوس فضلہ نکلتاہے جوسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے کامیاب نفاذ کے لیے ایک اہم چیلنج بن سکتا ہے اور پچھلے کئی سالوں سے حکومت ٹھوس کچرے کے خطرے سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ ابھی تک کچرے کو مختلف زمروں میں تقسیم کرنے جیسے کمپوسٹنگ، ری سائیکلنگ وغیرہ کا سرینگر میں آغاز نہیں کیا گیا ہے۔حالانکہ اتھارٹی 1984 سے کچرے کو اکٹھا ہی پھینک رہی ہے ۔اسلامک یونیوسٹی کے وائس چانسلر و شعبہ ارضیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل رومشو نے بتایا کہ کچرے کو ندی نالوں اور دیگر بڑے دریائوں میں پھینکے سے نہ صرف پانی کا معیار متاثر ہورہاہے بلکہ اس سے ماحول پر بھی کافی بُرا اثر پڑسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کو کھلے میں پھینکے سے بدبو پھیلتی ہے جس سے کئی طرح کی بیماریاں بھی لگنے کا اندشیہ رہتا ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ سالڈ وویسٹ منیجمنٹ پروگرام کے تحت جموں وکشمیر میں ٹھوس فضلہ ٹھکانے لگانے کیلئے 19کلسٹربنائے گئے تھے لیکن ان کلسٹروں پر کتنا کام ہوا اس تعلق سے کوئی جانکاری نہیں ہے ۔حال ہی میں سرینگر میونسپل کارپوریشن نے اپنے ایک پریس بیان میں بتایا کہ مزید 150 نئی گاڑیاں کچڑا جمع کرنے کیلئے شہر میں دستیاب رکھی گئی ہیں ۔ایس ایم سی کے کمشنر اطہر عامر خان نے شہر بھر میں کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کی تعیناتی کے لیے ایک نظرثانی شدہ شیڈول جاری کیا تھا، جس کا مقصد خشک اور گیلے کچرے کو 100 فیصد جمع کرنے کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ قریب 200گاڑیوں کے ذریعہ یہ کچڑا اٹھایا جاتا ہے ۔کارپوریشن حکام نے بتایا کہ ایس ایم سی اچھن لینڈ فل سائٹ پر لیگیسی ویسٹ کو ہٹانے اور موجودہ کچرے کی بائیو مائننگ اور بائیو میڈیشن کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہے جس کے لئے سوچھ بھارت ابھیان کے تحت فنڈس بھی ملے ہیں ۔