شہر سمارٹ بنانا ہے تو پہلے خود سمارٹ بنیں!

ایک ایسے وقت جب جموںاور سرینگر شہروں کو سمارٹ شہر بنانے کیلئے اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں اور دونوںصوبائی دارالحکومتی شہروں میں ہر جگہ اکھاڑ پچھاڑ گئی ہے ،عام لوگوںکا ماننا ہے کہ دونوں شہروں میں سمارٹ جیسا کچھ نہیں ہے اور لوگوںکے مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔عوامی شکایات اپنی جگہ لیکن جب حقیقی معنوں میں زمینی سطح پر صورتحال کاجائزہ لیاجاتا ہے تو سرینگراور جموں شہروں میں کچھ سمارٹ نظر نہیں آتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دونوںشہروں کی حالت پہلے سے بد تر ہوچکی ہے تو بیجا نہ ہوگاکیونکہ نہ شہروں کی فیس لفٹنگ ہوپائی ہے اور نہ ہی غلاظت ان شہر وںسے جانے کا نام لے رہی ہے۔ان حالات میں کوئی نہیں جانتا کہ سرینگر اور جموں کب سمارٹ شہر بن جائیں گے لیکن کم از کم ہرایک شہری کی یہ خواہش ہے کہ یہ شہر رہنے کے قابل بن جائے تاہم اس کیلئے بھی حقیقی معنوں میں کچھ بہت بدلنا ناگزیر ہے۔ وہ بنیادی باتیں جن پر شہر کے تصور کی بنیاد پڑتی ہے،اُن پر بات بعد میں بھی کی جاسکتی ہے لیکن پہلی چیز جو کسی جگہ کو رہنے کے لیے اچھی بناتی ہے، وہ اب ان شہروں میں ناپید دکھائی دیتی ہیں۔

دونوں شہر تیزی سے ایک ایسی جگہ میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں جہاںبہت بڑی آبادی اپنی زندگی کا انتظام انتہائی افراتفری کے عالم میں چلانے پر مجبور ہوچکی ہے اور جو چیز اسے انتہائی ناگوار بناتی ہے وہ ان کی صفائی کی حالت ہے ۔ان شہروں کے کسی بھی علاقے کو لے لیں،چاہئے وہ پوش ایئریا ہی کیوں نہ ہو، وقفے وقفے پرکچرے کے ڈھیر ایک بدنما داغ بنے ہوئے ہیں اور ہر دن گزرنے کے ساتھ یہ کچرے کے ڈھیر بڑے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔گیلا کچرا جو سڑکوں کے کنارے پھینکا جاتا ہے یا کچھ جگہوں پر ڈھیر لگا دیا جاتا ہے وہ ہمارے شہری کردار پر ایک بلند وبالا فیصلہ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہم بدصورت اور خوبصورت کی تمیز کھو چکے ہیں۔ ہماری شخصیتوں میں ایک چونکا دینے والی تقسیم ہے۔ ہم اپنے گھروں کی تعمیر اور اپنے انفرادی مرکبات کے اندر جگہ کو خوبصورت بنانے کے لیے بہترین چیزیں حاصل کرنے میں بہت زیادہ رقم لگاتے ہیں۔لیکن جب بات گلی،کوچے اور باہر کی سڑک پر آتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا کہ سارا کچرا اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ ہمارے دماغ، ہمارے کردار اور ہمارے رویے کے ساتھ سنگین طور پر کچھ غلط ہے۔کوئی بھی شہر آخر کار اس کے مکینوں کا عکس ہوتا ہے۔ اگر کچرے کے ڈھیر ہوں اور ہر جگہ بدبو پھیلے تو بدصورتی ہمارے اندر موجود ہے۔ان دونوں شہروں میں رہنے والے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہم کم سے کم یہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے گھر سے نکلنے والے کچرے کو خود ٹھکانے لگائیںاور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے۔ اس پر صرف تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم عہد کرلیں کہ ہم اپنے گرد وپیش کو صاف رکھیں گے تو کوئی مشکل نہیںکہ شہر چند دنوں میں ہی بدل جائیں کیونکہ جب ہم اپنا گھریلو کچرا گلی کوچوں اور سڑکوںکی نذر نہیں کریںگے تو صفائی خود بخود بحال ہوگی۔اب جہاں تک شہر کے ذمہ داروں کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہورہے ہیں۔متعلقہ حکام کے لئے اب وقت آچکا ہے کہ وہ بیداری مہم شروع کریں اور ہر گھر کو اس میں شامل کریں۔فضلہ باہر پھینکنے پر لوگوں کو سزا دینے سے پہلے ہم کوڑا کرکٹ، اور کچرا باہر پھینکنے کو شرمناک بنا سکتے ہیں۔جب تک شہروں کو کچرے کے ان ڈھیروں سے نجات دلانے کے لیے ایک مستقل مہم نہیں چلائی جاتی، ہمارے علاقے بدبودار ہوتے رہیں گے۔اب جہاں تک سمارٹ سٹی پروجیکٹوں کا تعلق ہے تو ان کے تکمیل کی توسیع شدہ ڈیڈلائن جون2023ہے ۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ تاخیر سے ہی سہی ،لیکن سبھی پروجیکٹوںپر کام شروع ہوچکا ہے اور اگر یہ وقت پر مکمل ہوتے ہیں تو دونوںشہروں کا حلیہ کسی حد تک بدل سکتا ہے۔سمارٹ سٹی مشن کے تحت دردست لئے گئے پروجیکٹوں میں ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ، واٹر ٹرانسپورٹ، روڈ ری ڈیولپمنٹ، آئی سی سی سی، آئی ٹی ایم ایس، اربن موبلٹی، سٹی بیوٹیفکیشن، سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اپ گریڈیشن، ہیریٹیج کنزرویشن، ڈاؤن ٹاؤن کی تجدید، سائیکل ٹریکس، واک ویز، مربوط سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ، براری نمبل ڈیولپمنٹ اور ڈل جھیل فرنٹ ڈیولپمنٹ شامل ہیں۔حکام کے مطابق سمارٹ سٹی مشن شہری تجدید اور شہر کو فروغ دینے کے مقصد کے ساتھ ریٹروفٹنگ ،بنیادی بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی، شہریوں کو بہترین معیار زندگی کی فراہمی اور خدمات اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے سمارٹ حل کا اطلاق ہے۔یقینا شہر کے باشندے یہ سہولیات حاصل کرنا چاہیں گے اور یقینی طور پر اگر یہ کاغذی منصوبے من و عن زمین پر روبہ عمل لائے جائیں گے تودونوں شہروں کا نقشہ بدل جائے گالیکن اس کیلئے حکام کو تیار رہناہوگااور کام کی رفتار میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ تصور کردہ سری نگراور جموں سمارٹ سٹی مشن مستقبل قریب میں ایک حقیقت بن سکے۔