شعبہ تعلیم … بورڈ نصب کرنے سے سکول نہیں بنتے!

کسی بھی قوم کے لئے تعلیم ایک ا یسا اہم ترین شعبہ ہے جوا س کی سماجی بیداری، معاشی خوشحالی اور ہمہ جہت ترقی کاپیمانہ طے کرتا ہے تاہم جموں و کشمیر میں بد قسمتی سے اس کی موجودہ صو رتحال انتہائی مایوس کن ہے جس کے مضر اثرات مستقبل میں انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ کہنے کو تو گزشتہ چند برسوں میں سکولوں اور کالجوں کی بھر مار کر دی گئی ہے اور بقول حکومت پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم کی سہولیات لوگوں کی دہلیز تک پہنچا دی گئی ہے لیکن اس کی حقیقی تصویر کیا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جموںوکشمیرمیں فی الوقت شعبہ اعلیٰ تعلیم میں اسسٹنٹ لیکچرروں کی 1600سے زیادہ اور سکولوں کے اسا تذہ کی10ہزارسے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ نئے کھولے گئے کئی کالج ہنوز مستعار عمارتوں میں چل رہے ہیں ،سینکڑوں سکولوں کے پاس اپنی کوئی عمارت نہیں نیز ایسے سرکاری سکولوں کی تعداد بھی سینکڑووںمیںہے جن کے پاس بلڈنگ کے نام پر 2یا 3کمرے ہیں جب کہ ان میں پینے کے پانی ، بیت الخلا ، بیٹھنے کے لئے ڈیسکوں اور ٹاٹ کا بھی معقول انتظام نہیں۔ ان حقائق سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اگرچہ حکومت شعبہ تعلیم کو اپنی ترجیحات میں گردانتی ہے اور اپنے دعوئوں کے ثبوت کے طور پرارباب بست و کشاد نئے کھولے گئے پرائمری ، مڈل ، ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوںاور کالجوں کی تعداد فخریہ انداز میں گنوانا شروع کر دیتے ہیں لیکن بنیادی ڈھانچہ کے فقدان ، تدریسی عملہ کی نا قابل ِ یقین حد تک قلت اور ضروری سہولیات کی کمی کا ذکر بمشکل ہی کیا جا تا ہے کہ مبادا حصولیابیوں کے طویل فہرست پر اوس نہ پڑ جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس معاملہ میں بھی بد ترین متاثر دیہی اور دور دراز علاقے ہیں جہاںسرکاری سکول اور کالج تو کھول دئے گئے لیکن ان کو فعال بنانے کے لئے کوئی معقول منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس کا خمیازہ آج اسی طبقے کو بھگتنا پڑ رہا ہے جس کو بظاہر راحت پہنچانا حکومت کا مقصود تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار اس حد تک کمزور ہو چکا ہے کہ اول تو ان میں زیر تعلیم غریب طلبا بورڈ اور یونی ورسٹی کے امتحانات پاس نہیں کر پارہے ہیں اور کسی طرح وہ اس میں کامیاب ہو بھی جائیں تو ان کا شمار محض ڈپلوما یا ڈگری کی حد تک ہی خواندہ لوگوں میں کیا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ جب بنیاد ہی کمزور ہو گی تو اس پر کھڑ ے گئے ڈھانچہ کے کمزور ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ دراصل یہ پورا معاملہ ناقص منصوبہ بندی کا ہے کیونکہ جب حکومت نے نئے سکولوں اور کالجوں کا ایک سیلاب جاری کر دیا تو اس وقت اس بنیادی نکتے کی طرف دھیان نہیں دیا گیا کہ ان کے لئے تدریسی و غیر تدریسی عملہ کہاں سے آئے گا، نئی بھرتیوں میں کتنا وقت لگ سکتا ہے اور بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لئے کتنا وقت درکار ہو گا ؟۔اس میں متعلقہ محکمہ جات کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جہاں تک رقوم کی فراہمی کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ مرکزی حکومت مائل بہ کرم ہے لیکن جموںوکشمیر میں کوئی سائل ہی نہیں‘‘۔ گزشتہ برسوںمیں مرکزی حکومت نے سروشکھشا ابھیان کے تحت رقومات اس لئے روک دی تھیں کیونکہ بہت سے اضلاع میں اس سکیم کے تحت قبل ازیں فراہم کئے گئے فنڈز استعمال نہیں کئے گئے تھے۔ راشٹریہ مادھیمک شکھشا ابھیان نامی مرکزی سکیم کا حشر بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ان دونوں سکیموں کے تحت اربوں روپے تعلیمی ڈھانچہ میں سدھار لانے کے لئے مرکزی حکومت فراہم کر رہی ہے لیکن یہاں بھی نوکر شاہوں اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ سے ادنیٰ افسران کی تساہلی کی وجہ سے یہ رقوم ضائع ہو رہی ہیں۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2010-11سے اب تک سکولوں میں داخلوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے اور اب اس مدت کے دوران 1.5لاکھ بچے سکولوں سے واپس نکلے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ شعبہ تعلیم میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اور ضرور خامیاں ہیں جن کی وجہ سے داخلوں میں کمی واقع ہورہی ہے حالانکہ اس ضمن میں مرکز کی جانب سے زر کثیر صرف کیا جارہا ہے ۔وقت آچکا ہے جب طلبا کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کے لئے ہنگامی طور پر سرکاری تعلیمی اداروں میں عملے کی فراہمی اور بنیادی ڈھانچہ فوری توجہ کا طالب ہے تا ہم قلیل مدتی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے بنا مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ علاوہ بر یں یہ جبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ اربابِ اقتدار بھی محض تقا ریر اور اعلانات تک محدود نہ رہ کر مکمل سنجیدگی اور خلوص کا مظاہرہ کریں، بصورت دیگر ہم یوم خواندگی مناتے رہیں گے لیکن اس کی روح کے ساتھ انصاف نہیں کرپائیں گے۔