شجرِ نبوت کا ثمرِشیریں،حضرت امام جعفر صادق ؒ ذاتِ بابرکات

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اللہ تعالیٰ اپنے دین کے کام اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جس طرح افراد کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے کام کے لئے کچھ نسلوں اور خاندانوں کا انتخاب بھی کرتا ہے۔ سورۂ آل عمران کی 33 ویں آیت مبارکہ کا مفہوم یہی ہے : اللہ تعالیٰ نے آدم و نوح اور آلِ ابراہیم و آلِ عمران کو تمام جہانوں سے (اپنے دین کے کام کے لئے ) منتخب کر لیا ،یہاں یہ بات تو واضح ہے کہ عمران نبی نہیں تھے لیکن آل یا نسل اُن کی صاحبزادی حضرت مریم سلام اللہ علیھا اور اُن کے نواسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نسل چلی ،اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا کی اور ان سے دین کا بہت بڑا اور عظیم الشان کام لیا۔ اس میں اس جانب بھی اشارہ ہے کہ اللہ اپنے کام کے لئے جن نسلوں اور خاندانوں کا انتخاب کرتا ہے تو وہ نسلیں مرَدوں یا بیٹوں کے ذریعے بھی ہوتی ہیں اور عورتوں یا بیٹیوں کے ذریعے بھی چلتی ہیں۔
آل ابراہیم ہی سے خاتم الانبیاء احمدِ مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم کر کے آسمان سے جبرائیل ؑ کی زمین پر آمد اور ’’وحی الہٰی ‘‘ کوقیامت تک کے لئے موقوف کر دیا گیا۔
اللہ نے جس طرح اپنے دین کو دنیا میں غالب و نافذ کر نے کے لئے آلِ ابراہیم سے اپنے رسولِ ’’مجتبیٰ و مصطفی‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب کیا، اسی طرح اللہ نے خاتم النبیینؐ کے بعد آپؐ کے لائے ہوئے دین اور نظامِ حیات اسلام کی دنیا میں ترویج و اشاعت اور بقا کے لئے خانوادۂ نبوتؐ کا انتخاب اپنی سنت کے مطابق کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح نبی’’ مجتبیٰ‘‘ و رسولِ’’ مصطفی‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دنیا کی مقدس و پاکیزہ ترین ازواج کا انتخاب کیا ،اسی طرح ان ازواجِ مطہرات ؓسے آپؐ کے لیے دنیا کی بہترین آل و اولاد اور نسل منتخب کی جسے خالقِ نے خود ’’اہلِ بیتِ اطہار‘‘ کے مقدس و پاک لقب سے ملقّب کیا۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو اولادِ نرینہ یا صاحبزادے عطا کئے، وہ سب حکمت و مشیتِ خداوندی کے تحت کمسنی و بچپن ہی میں وصال فرماگئے۔ آپؐ کی چار صاحبزادیاں تھیں جن میں سے صرف فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا ہی کی اولاد نرینہ جوان اور طویل العمری تک پہنچ کر صاحبِ اولاد ہوئیں۔ یہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین ؓ ہیں۔ اس طرح اللہ نے اپنی مشیت و حکمت کے تحت ’’ساقی کوثر‘‘ اور صاحبِ ’’رفعنا لک ذکرک‘‘ رسول’’ ِ مجتبیٰ و مصطفی‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسلِ پاک سورۂ آلِ عمران میں بیان کردہ قانون کے تحت آپ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادوں حضراتِ حسنین کریمین ؓ سے چلائی اور آلِ محمدؐ اور اہل بیت اطہارؓ کا یہ سلسلۂ رشدو ہدایت قیامت تک کے لئے جاری فرمایا جو درحقیقت آلِ ابراہیم ہی کا تسلسل ہے۔ جس کا اقرار واظہار امت ہر نماز میں درودِ ابراہیمی کے الفاظ سے کرتی ہے۔
اسی آلِ ابراہیم اور خانوادۂ نبوتؐ کا ایک روشن چراغِ امامت و ہدایت حضرت سید نااما م جعفرؒ کی ذاتِ بابرکات ہے۔آپ کی ولادت ۸۰ ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ حضرت امام زین العابدین ؒ کے پوتے اور حضرت امام محمد باقر ؒ کے بیٹے ہیں۔ حضرتِ امام حسین ؓ آپ کے پرَ دادا تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے جّدِامجد اور رسول اللہ ﷺ آپ کے جّدِ اعلیٰ تھے۔ آپ کی والدہ اُمِ فروہ حضرت قاسم بن محمد کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت قاسم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے ۔ گویا کہ ننہیال کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ملتا ہے ، لہٰذا والدہ کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپ کے جّد امجد ہیں۔
اسی نسبت کی وجہ سے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ ولدنی ابوبکر مرتین‘‘ یعنی میں ابوبکر صدیقؓ سے دو مرتبہ پیدا ہوا ہوں۔ اس ارشاد کی وضاحت میں حضرت مجد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقؒ کا نسبِ صوری (ظاہری) اور نسبِ معنوی(باطنی) حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ملتا ہے، لہٰذا علم باطن طریقت و تصوف میں آپ کی نسبت باطنی آپ کے نانا حضرت قاسم بن محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ہے۔ ‘‘ آپ صوفی سلاسل قادریہ اور نقشبندیہ کے اولین شیوخ میں سے ہیں، آپ جلیل القدر تبع تابعین بزرگوں میں سے تھے‘‘۔
حضرت امام جعفر صادق ؒکے جّد امجدّ’’باب العلم‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور جّد اعلیٰ ’’ مدینۃ العلم ‘‘ ہیں، اس نسبت علمی سے آپ کا گھرانہ ’’بیتِ علوی‘‘ مدینہ منورہ میں علم و نور اور عرفان کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ عالم اسلام کے جیدعلماء ، مفسرین محدثین فقہاء اس مرکز علم و معرفت پر کسبِ علم اور حصولِ فیض کے لئے حاضرہوتے تھے۔ اسی بحر علم گھرانے میں حضرتِ امام جعفر صادق ؒکی تعلیم و تربیت ہوئی۔
آپ کو علم کے تین سر چشموں سے سیراب ہونے کا موقع ملا ،آپ نے اپنے دادا حضرت امام زین العابدین ؒ ، اپنے والد امام محمد باقر ؒ اور اپنے نانا حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر ؓ سے علم حاصل کیا۔ اس اکتسابِ علم اور نسبت ائمہ و علماء سے قدرت نے آپ کو علم کے سانچے میں ڈھال دیا۔ آپ قرآن و حدیث اور فقہ کے یگانہ روزگار عالم و امام تھے۔ آپ کے علم و فضل کے بارے میں تمام اکابر اور ہم عصر معترف ہیں۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ آپ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم و معرفت کا حامل سمجھتے تھے۔ فرماتے ہیں ’’میں نے امام جعفر صادق ؒ سے بڑھ کر علم دین کا عالم کسی دوسرے کو نہیں پایا۔ حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے علم و فضل اور تقویٰ میں امام جعفر صادقؒ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔حضرت امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق ؒ سادات و بزرگانِ اہلِ بیت میں سے تھے۔ ہر طرح کی جملہ عبادات، مشاغل اور اوراد و وظائف میں نمایاں اور زہد ِ کامل کے حامل تھے۔
کثرت سے تلاوت فرماتے ۔ ابنِ حجر مکی کے نزدیک ’’تمام عالمِ اسلام میں آپ کے علم و حکمت کا شہرہ تھا۔ علامہ شہرستانی فرماتے ہیں کہ ’’ امام جعفر صادقؒ علم دین اور ادب کا سرچشمہ ، حکمت کا سمندر ، زہدو تقویٰ میں کامل تھے۔ عبادت و ریاضت میں بلند پایہ تھے۔ دنیا کی محبت اور شہرت سے بے تعلق تھے اپنے تقویٰ اور زہد و عبادت کو مخلوق سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ عمربن ابی المقدام فرماتے ہیں کہ ’’ جب میری نظر جعفر صادق ؒ پر پڑتی تو یہی نظر آتا کہ وہ شجرِ نبوت کا ثمرِ شیریں ہیں۔
علمِ حدیث اور روایت حدیث حضرت جعفر صادقؒ کے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے، آپ سے بکثرت احادیث مروی ہیں، حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا حضرت جعفر صادقؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی ہو اورآپ باوضو نا ہوں۔‘‘ حضرت امام مالک ؒ ہی کا فرمانا ہے کہ ’’ میں ایک زمانے تک حضرت جعفر صادق ؒکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتا رہا، میں نے ہمیشہ آپ کو تین عبادتوں میں سے کسی عبادت میں مصروف پایا۔ یا تو آپ نماز پڑھتے ہوئے نظر آتے، یا تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوتے یا پھر روزے دار ہوتے۔‘‘امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ اور احمد بن حنبلؒ ، حضرت امام جعفر صادق ؒ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اکتساب علم کرنے والوں میں شامل ہیں آپ کے شاگردوں کی تعداد 4000تک بتائی گئی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق ؒکے تقویٰ و خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرتِ داؤد طائیؒ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امام مجھے کچھ نصیحت فرمائیں تو حضرت امام جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ ’’ مجھے تو خود یہ اندیشہ اور خوف ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جّد اعلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا دامن پکڑ کر یہ نہ فرمایا دیں کہ تو نے میری اطاعت اور تابع داری کا حق ادا کیوں نہیں کیا، کیونکہ یہ کام نسب کی شرافت پر موقوف نہیں، بلکہ بارگاہ رب العزت میں عمل کی پسندیدگی پر منحصر ہے۔ یہ سن کر داؤد طائی پر رقت طاری ہوگئی۔
آپ کے جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ دوسروں کو کھانا اس طرح کھلاتے کہ اپنے بچوں تک کے لئے کچھ نہیں چھوڑتے تھے۔ ایک مسافر کی اشرفیوں کی تھیلی گم ہوگئی ،اس نے آپ سے پوچھ لیا کہ میری تھیلی آپ کے پاس ہے، آپ نے اس اجنبی سے پوچھا اس تھیلی میں کیا تھا ؟اس نے کہا کہ ایک ہزار دینار، آپ اسے اپنے گھر لے گئے اور ایک ہزار دینار دے دیئے ،جب وہ واپس آیا تو اسے اپنی گمشدہ تھیلی اپنے ہی سامان سے مل گئی ،وہ بہت نادم اور شرمندہ ہوا، آپ کے آستانے پر تھیلی واپس کرنے آیا ۔آپ نے فرمایا کہ ہم جو کچھ دے دیتے ہیں، پھر واپس نہیں لیتے۔ قحط کے زمانے میں گھر کا سارا غلہ بازار میں فروخت کر وا دیا، خادم نے کہا کہ گھر میں کیا ہوگا۔ فرمایا جو سب کے ساتھ ہوگا وہی ہمارے ساتھ ہوگا۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہر شریف آدمی چار کاموں میں بالکل شرمندگی اور عار محسوس نہ کرے، والد کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونے میں، مہمان کی خدمت کرنے میں، اپنے چوپایوں کی دیکھ بھال خود کرنے میں ،چاہے اس کے سو خادم ہو، اپنے استاد کی خدمت کرنے میں ، فرمایا’’نیکی تین خوبیوں کے بغیر کامل و اکمل نہیں ہوتی، اُسے جلد ی کرنا، اسے چھوٹا سمجھنا ، اُسے چھپانا، فرمایاکہ ’’ وہ مختصر عمل جو تقویٰ کے ساتھ ہو اس عمل سے کہیں افضل و برتر ہے جو بغیر تقویٰ کے انجام دیا کیا ہو۔
حضرت امام جعفر صادق ؒ نے صرف علم ہی نہیں اخلاق و عبادت اور معاشرت میں بھی امت مسلمہ کی رہنمائی اور امامت فرمائی۔ آپ نے جس علمی تحقیق کی بنیاد رکھی ،اس کے سبب اسلامی دنیا علم کا گہوارہ بن گئی۔ آپ کو علم کلام ، علم جفر ، علم کیمیا اور دیگر سائنسی علوم میں بھی کمال حاصل تھا۔ مشہور کیمیاء داں ابنِ حّیان نے بھی آپ سے علم حاصل کیا۔ غرض کہ آپ کا علم ، دانش، آگہی ، عقل، فلسفہ داد ا کی وراثت اور نانا کا ترکہ تھا، جن کے در دولت پر علم وانش دربان بنے دست بستہ مؤدب کھڑےنظرآتے ہیں۔ آپ علم و تقویٰ میں معیار امامت پر فائز تھے، آپ کا دور سیاسی انار کی دور تھا۔ لہٰذا آپ سیاست سے کنارہ کش ہی رہے، آپ کا وصال ۱۴ رجب ۱۴۸ ھ میں مدینہ میں ہوا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔