شان ِاہل بیتؓ اور دورِ حاضر کامسلمان

پیر محمد عاقب بابا
یوں تو ہر کوئی ذی شعور مسلمان کربلا کے بارے میں جانتا ہے کہ کربلا میں ہمیں کیا سبق ملا کہ کیسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لایا۔اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو ایک سبق دیا کہ ہمیشہ ’’صبر و صلوٰۃ ‘‘کا سہارا لینا چاہیے۔

کربلا کا واقعہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ جب کوفہ والوں نے حضرت امام حسینؑ کو دعوت دی کہ آپ یہاں تشریف لائیں، کہ ہم آپ کے دست مبارک پر دست رکھ کر مسلمان ہونا چاہتے ہیں،تو آپؓ نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو وہاں بھیجا،جب حضرت مسلم بن عقیل ؓ وہاں پہنچے تو اس نے دیکھا کہ لوگ بہت تشنہ لب ہیں کہ ہم ایمان لائیں گے۔ مسلم بن عقیلؓ نے یہ دیکھا کہ ایک دن میں ہی چالیس ہزار لوگوں نے ایمان لایا،تو انہوں نے قاصد سے ایک خط حضرت امام حسین ؑ کو بھیجا، اس میں حضرت مسلم بن عقیل نے لکھا کہ ’’یہاں کوفے والے آپؓ کا بہت زیادہ انتظار کر رہے ہیں کہ کب آپ تشریف لائیں۔جب خط حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پہنچا تو آپ نے سوچا کہ اب ہم کو جانا ہی پڑے گا۔جب حضرت امامؓ نے مدینہ منورہ سے سفر شروع کیا تو وہاں اسی وقت گورنر کو تبدیل کرکے ابن زیاد کو گورنر مقرر کیا اور انہوں نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کیا۔وہ لوگ جو کل مسلم بن عقیلؓ کے ہاتھوں پر مسلمان ہوئے تھے،آج ابن ِزیاد کی ظلم کی وجہ سے بیعت واپس لی۔

جب حضرت امام حسینؑ وہاں کوفہ پہنچے توکیا دیکھا کہ کل تک جو میرے ساتھ تھے، اب مجھے شہید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اب زیاد نے یزید کا حکم مانتے ہوئے امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ سے کہاکہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرو،تو آپ کی جان بچ جائے گی۔لیکن اس بد بخت کو معلوم نہیں تھا کہ یہ نواسۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ السلام ہیں اور یہ معرکہ اصل میں حق اور باطل کے درمیان ہےنہ کہ حکومت کی۔اہل بیت پر پانی بند کرنے کے بعد آخر کار حق کی جیت ہوئی ،جب امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ نے اپنے رفقاء سمیت شہادت نوش فرمائی۔تو اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نماز کی حالت میں تھے۔

اللہ پاک نے اہل بیت کی شان میں ایک آیت جس کا ترجمہ یوں ہے کہ’’ اللہ پاک تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو! تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھراکردے(کنزالایمان)
حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اولادوں کو تین باتیں سکھاؤ :اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت۔اہل بیت کی محبت ۔تلاوت قرآن پاک۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ’’میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ رہا ہوں، پہلی اللہ پاک کی کتاب یعنی قرآن کریم ،جس میں ہدایت اور نور ہے،تم قرآن کریم پر عمل کرو اسے مضبوطی سے تھام لو ۔دوسرا،میرے اہل بیت ۔ اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا:کہ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں ‘‘۔
حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت حاصل کرنے کے لئے مجھ سے محبت کرو،اور میری محبت حاصل کرنے کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔(ترمذی ج۔۵۔ص۔۴۳۴۔حدیث نمبر ۳۸۱۴)
فرمان مصطفیؐ ہے ’’ہمارے اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑ لو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کی قبضہ ٔقدرت میں میری جان ہے!کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا(یعنی میرا اور میرے اہل بیت کا) حق پہچانے(معجم اوسط ج 1 ص۔606 حدیث 2230)پیارے آقا صلی اللہ علیہ و السلام نے آخری حج میں عرفے کے دن اپنی اونٹنی ‘قصوا پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ’’اے لوگو!میں نے تم میں وہ چیز چھوڑ دی ہے کہ جب تک تم ان کو تھامے رہو گے، گمراہ نہ ہو گے،اللہ پاک کی کتاب یعنی (قرآن پاک) اور میری عترت یعنی (اہل بیت)۔

اللہ پاک کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و السلام نے ارشاد فرمایا، ’’اگر تم نے میرے ساتھ معاملہ دنیا کے لئے کیا ہے تو میں تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ ابھی دے دیتا ہوں اور اگر تم نے میرے ساتھ معاملہ آخرت کے لئے کیا ہے تو صبر کرو ،بے شک میرے پاس بہت اچھا بدلہ ہے‘‘۔(شرف المصطفیٰ ج 3ص 216)

ان احادیث شریف کی روشنی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اہل بیت سے محبت کریں۔لیکن آج کل ہم اپنے معاملات میں بہت مگن ہوئے ہیں، ہم اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار رہے ہیں۔ کاش ! ہم اپنی زندگی قرآن و حدیث کے مطابق گزارتے تو جو حالات اس وقت ہمارے ہیں، نہیں ہوتے۔ہمیں آج کل نماز اور صبر کا کچھ خیال ہی نہیں۔جیسا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا میں شہید ہوکے یہ سبق دیا کہ کیسے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ’’نماز پڑھنے اور صبر‘‘ والوں کے ساتھ ہے۔
(رابطہ۔ 7889598823)
[email protected]