شام کی عرب لیگ میں واپسی ندائے حق

اسد مرزا

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عرب لیگ اپنا اصل محور اور مقصد کھو چکی ہے اور اس کا مظاہرہ اس بات سے ہوتا ہے جس میں رکن ممالک اس کے اجلاسوں اور اس کے فیصلوں کو غیر سنجیدہ انداز میں لیتے ہیں۔ مراکش نے 2016 میں ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس تقریب کو وقت کا ضیاع قرار دیا تھا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے طبی بنیادوں پر الجزائر میں گزشتہ سال ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ سربراہانِ مملکت کو بعض اوقات فورم کے اجلاسوں میں سوتے ہوئے بھی دیکھا جاچکا ہے۔

 

مجموعی طور پر تاثر یہی قائم ہوتا ہے کہ عرب لیگ محض ایک دکھاوا بن کر رہ گئی ہے اور اس کے بیشتر ممالک اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں اگر کسی عالمی رہنما کو سب سے زیادہ پسند آنے والی کوئی تنظیم ہے تو وہ ہیں شام کے بشر الاسد کیونکہ انہیں بارہ سال کے عرصے کے بعد دوبارہ عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ شام کو 2011 میں لیگ سے معطل کر دیا گیا تھا، جب اسد نے حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع کیا تھا جس نے ملک کو خانہ جنگی میں ڈال دیا تھا۔اسد کی جانب سے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کی استعمال کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد اور گمشدگیوں اور 30 لاکھ سے زائد شہریوں کی ہلاکت کا کہیں اور کوئی مماثلت نہیں ہے۔ یہ ایک میراث ہے، جو اسے اپنے والد حافظ الاسد سے وراثت میں ملی ہے، جس نے 1982 کے محاصرے کے دوران حما شہر میں 10,000 سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا تھا۔تاہم7 مئی کو، عرب لیگ نے شام کو دوبارہ اپنے دائرۂ کار میں شامل کرنے پر اتفاق کیا۔ اگرچہ زیادہ ترلوگوں کو یہ تنظیم علاقائی آمروں سے بھری ہوئی دکھائی دے سکتی ہے، اور ان کے لیے ناگوار ثابت ہوسکتی ہے لیکن اسد کے لیے، یہ ان کی عرب تنہائی کو ختم کرنے کی ایک طویل کوشش کی انتہا ہے اور وہ امید کر سکتے ہیں کہ مغرب بھی جلد ہی انھیں قبول کرلے گا۔
شام پر امریکہ کا موقف : تاہم، اسد کی علاقائی عرب قبولیت امریکہ کے لیے ایک ’’مسئلہ‘‘ پیدا کرسکتی ہے، جو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کرتا رہتا ہے لیکن وہ اپنے عرب شراکت داروں کو دمشق کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر مجبور نہیں کر سکا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ اسد کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات معمول پر آنے کی حمایت نہیں کرتے ہیں، لیکن وہ ان مقاصد کا اشتراک کرتے ہیں جو تعلقات کی بحالی سے لائے جا سکتے ہیں، بشمول تنازعات سے متاثرہ علاقوں تک انسانی رسائی کو بڑھانا، داعش/آئی ایس آئی ایس کا مقابلہ کرنا، ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اور منشیات( کیپٹاگون) کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنا۔

 

یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے مرکز کی نائب صدر مونا یعقوبیان نے الجزیرہ کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن کے تحت امریکی پوزیشن ’’ایک مشکل پیچیدہ اور موقع پرست چیلنج ‘‘کی عکاسی کرتی ہے۔لیکن شامی حکومت کی زیادتیوں کے لیے جوابدہی کے بغیر، انہوں نے مزید کہا، واشنگٹن دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا یا غیر ملکی تعمیر نو کے فنڈز کی روک تھام سمیت اپنی بھاری پابندیوں میں نرمی نہیں کرے گا۔ امریکہ کا موقف بالکل واضح کرتے ہوئے، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا، ’’ہم نہیں مانتے کہ شام کو عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا حق ہے۔‘‘پھر بھی، بلنکن نے کہا کہ شام میں واشنگٹن اور اس کے عرب اتحادیوں کے وسیع تر مشترکہ مقاصد ہیں۔ پچھلے ہفتے، امریکی کانگریس کے نمائندوں کے ایک گروپ نے اسد اینٹی نارملائزیشن ایکٹ کے نام سے ایک بل متعارف کرایا، جس کا مقصد “اسد حکومت اور اس کے حامیوں کو شامی عوام کے خلاف ان کے جرائم کے لیے جوابدہ بنانا اور اسد حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے روکنا ہے۔‘‘یہ بل اس بات کی علامت ہے کہ کانگریس ممکنہ طور پر بائیڈن اور مستقبل کی انتظامیہ پر شام کی پابندیوں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔

 

نیا منظر نامہ : دراصل زیادہ تر عرب ممالک نے شام کی عرب لیگ میں واپس پر کوئی زیادہ مشکلیں پیدا نہیں کی ہیں کیونکہ اگر ہم ایک جائزہ لیں تو دیکھ سکیں گے کہ عرب دنیا میں ایک نئی فضا قائم ہورہی ہے جس کے تحت زیادہ عرب ممالک پرانے تنازعوں کو ختم کرنے کی فراق میں نظر آرہے ہیں۔ سعودیوں نے مارچ میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے اور سفارتخانے دوبارہ کھولنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا۔ یعنی کہ شام اور یمن میں برسوں کی پراکسی جنگوں کے بعد اب دونوں ملک ماضی کو بھولنے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ ترکی اور مصر، باہمی اقتصادی بحرانوں میں پھنسے ہوئے، ایک دہائی کی دشمنی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خلیجی ریاستوں نے قطر پر عائد اپنی پابندیاں ختم کر دی ہیں۔جب شام کی بات آتی ہے تو زیادہ تر عرب ممالک بدلے میں کچھ چاہتے نظر آرہے ہیں۔اس میں سرِ فہرست ہے شامی مہاجرین کا مسئلہ۔ شام کے پڑوسی ملک لاکھو شامی پناہ گزینوں سے چھٹکارا پانے کی امید رکھتے ہیں۔ لبنان میں اس وقت 2 ملین یا اس سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ جنھیں ایک بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ترکی میں بھی حالات پناہ گزیں مخالف ہو گئے ہیں۔ 26 مئی کو ہونے والے انتخابات میں حزب اختلاف کے اہم امیدوار کمال کلیک دار اوغلو نے عہد کیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو وہ دو سال کے اندر شامیوں کوواپس شام بھیجیں گے۔

 

اس کے علاوہ مغرب کو امید ہے کہ شام کو واپس اپنانے کے نتیجے میں وہ اپنی Captagon تجارت کو کنٹرول کر نے کی کوشش کرسکتا ہے۔ شام اس وقت کیپٹاگون نامی ڈرگ بنانے والا کا دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر بن گیا ہے،یہ ایک ایمفیٹامین ہے جوزیادہ تر خلیجی ممالک میں منشیات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ غیر مصدقہ اندازوں کے مطابق اس تجارت کی سالانہ مالیت $57bn ہے۔ درحقیقت اسد کی عرب لیگ میں واپسی عرب دنیا اور اس کے آمرانہ لیڈروں پر ایک افسوسناک تبصرہ بھی معلوم ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عوام کی بہتری کے لیے کام کرنے کے بجائے 12 سال قبل ہونے والی ’عرب بہار‘ کو کچلنے کی ہر ممکن سازش کی تھی۔ درحقیقت جمہوریت نواز، حقوق کی حامی تحریک ختم نہیں ہوئی، بلکہ آمروں کی سازش کے ذریعے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ شام کے بارے میں امریکی پالیسی کے مستقبل سے قطع نظر، یہ حقیقت کہ عرب ریاستیں اسد کے ساتھ معمول پر آ رہی ہیں، یہ بھی خطے میں امریکی سیاسی اثر و رسوخ میں کمی کی علامت ہے۔

 

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)