شالہ بگ:بھیدکی نرم ولچکدارٹہنیوں سے مصنوعات بنانے کامرکز | ’ویرکانی‘فرنیچر،آرائشی سامان اورٹوکریوںکی تیاری ابھی تک مشینوں کے سپرد نہیں ہوئی

بلال فرقانی
سرینگر//وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع کا شالہ بگ گاؤں نرم و لچکدار ٹہنیوں سے دستکاری کی کئی چیزیں بنانے کیلئے مشہور ہے۔ ان لچکدار ٹہنیوں کو مقامی طور پر’ویر کانی یا کانی ‘ کہا جاتا ہے۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں ٹہنیوں کے تنوں سے چھال چھیلتے ہیں۔ وہ ان تنوں کو ’وائی‘ شکل کی چھڑی نما اوزارکے ذریعے چھلتے ہیں، جسے مقامی طور پر’زُلن‘ کہا جاتا ہے۔گاؤں میں تقریباً 6ہزارلوگ، یا 80 فیصد آبادی، اپنی روزی روٹی کے لیے اسی کام پر منحصر ہے۔ حکومت نے 2002 میں شالہ بگ کو ایک ماڈل گاؤں قرار دیا تھا۔بھید کا درخت گاندربل کے علاقے میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جہاں اس کی کاشت اور نشوونما کے لیے بہترین موسم اور مٹی پائی جاتی ہے۔ شالہ بگ اس کے پڑوسی دیہات،، تہلی پورہ، کاچن، اور گنڈی رحمان ودیگر علاقے اس کام کے بڑے مراکز ہیں۔اس درخت کی کاشت پودے سے کی جاتی ہے۔ جب کوئی پودا پھوٹتا ہے تو اسے کاٹ کر زمین میں بو دیا جاتا ہے تاکہ اس کی ٹہنیاں ہر سال کاٹی جا سکیں۔ پودے فروری مارچ میں بوئے جاتے ہیں اور اکتوبر میں کٹائی یا شاخ تراشی کی جاتی ہے۔ کٹائی کے بعد، کاشتکار ان شاخوںکے بنڈل لمبائی اور چوڑائی کے مطابق بناتے ہیں۔کاشتکار پھر ان تنوں کو ٹھیکیداروں کو فروخت کرتے ہیں۔ ٹھیکیدار تنوں کو کاریگروں یا شاخسازوںتک پہنچاتے ہیں اور انہیں ہدایت دیتے ہیں کہ کون سی مصنوعات تیار کرنی ہیں۔کاریگر سب سے پہلے تنوں کو نرم کرتا ہے۔ان ٹہنیوںکو پانی کے بڑے بوائلر میں اُبال کر نرم کیا جاتا ہے اور بھاری پتھروں سے دبایا جاتا ہے اور رات بھر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ لچکدار ہو جائیں اور موڑنے پر ٹوٹ نہ جائیں۔ اس کے بعد، ٹہنیوںکو زُلن کا استعمال کرتے ہوئے چھیل لیا جاتا ہے اورمختلف مصنوعات بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ تنوں کو ان کی اصل شکل میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دیگر کوکاٹا جاتا ہے۔ انہیں نیلے، سبز، گلابی یا سرخ رنگ کے رنگوں میں رنگا جا سکتا ہے۔ نمونے اور ڈیزائن تنوں کو مختلف سمتوں میں بنا کر بنائے جاتے ہیں۔تنوں سے نکالی گئی اس چھال کی مصنوعات بایوڈیگریڈیبل یا وقت کے ساتھ ختم ہونے والی اشیاء ہوتی ہیں، جو ایک دہائی تک چلتی ہیں، اور انہیں آرائشی ٹکڑوں اور افادیت کی اشیاء دونوں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔بھید درخت کی لکڑی نرم اور پائیدار کے علاوہ لچکدار ہوتی ہے، ٹوکریاں، بکس، ٹرے، اور کانگریوںکی بیرونی تہہ بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اس کام کو بین الاقوامی بازاروں تک پہنچایا گیا ہے جہاں ٹوکریاں اور فرنیچر کے خریدار کافی شوق سے اس کی خریداری کرتے ہیں۔اس سے پہلے کشمیر میں بھی مقامی طور پر اس کی کافی خرد و فروخت ہوتی تھی ۔دیگر دستکاریوں کی طرح، اس کام کے دستکار بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایک تبدیلی سے گزر ر ہے ہیں۔کویڈ وبا نے کاروبار کو متاثر کیا۔ ٹھیکداروں کا کہنا ہے کہ اس کاروبار میں صرف 10 فیصد نفع ہے، جو بہت کم ہے جبکہ پچھلے کچھ سالوں میں خریداری میں کمی آ رہی ہے اور وبائی بیماری نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’ایک ٹوکری 60 روپے میں اگر تیار ہوتی ہے تو ہول سیلر اس کو70روپے میں زیادہ سے زیادہ خریدتے ہے۔تاہم کاریگروں کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اوسطاً300سے400روپے کماتے ہیں۔شاخسازوںکا کہنا ہے کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں کیونکہ چھوٹے کاریگروں کیلئے سرکار کے پاس کافی اسکیمیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے مارکیٹ میں روابط پیدا کرنے کے لیے اقدامات کر کے ان کی مدد کی ہے۔محمد یوسف نامی شاخساز کہتے ہیں کہ حکومت نے دیہات میں کلسٹر بنائے ہیں جنہیں’ ای کامرس پلیٹ فارم ‘سے منسلک کیا گیا ہے تاکہ کاریگروں کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے میں مدد مل سکے۔محمد عبداللہ نامی ایک کاریگر کا کہنا ہے کہ کشمیر بھر میں پچھلی دہائی میں بھید کی ٹہنیوںسے بنی اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ کاریگروں نے پرانے ڈیزائنوں میں کچھ نئی اور جدید تبدیلیاں بھی لائی ہیں تاکہ مصنوعات کو ایک بڑی مارکیٹ حاصل کرنے کے لیے ہم عصر بنایا جا سکے۔ایک اور کاریگرمحمد مقبول کہتے ہیں’’پہلے اس اشیاء کی مانگ زیادہ نہیں تھی کیونکہ کانگڑیوں تک ہی اس کو محدود کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ’’جیسے جیسے مانگ روایتی استعمال سے آرائش اور فرنیچر کی طرف منتقل ہوئی ہے، فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا ’’ہم نئی اشیاء بنا رہے ہیں جو کہ روزانہ استعمال ہوتی ہیں جیسے فرنیچر اور گھریلو اشیاء شامل ہیں۔‘‘اس کام کیلئے خوشی کی سب سے بڑی سوغات یہ ہے کہ اسے ابھی تک مشینوں کے سپرد نہیں کیا گیا۔ کاریگر اب بھی ہاتھ سے اشیاء بناتے ہیں۔ تیار کردہ مصنوعات افادیت رکھتی ہیں اور پائیدار ہیں۔ ایک کاریگر کہتے ہیں، ’’پائیداری کی وجوہات کی بناء پر آج کل لوگ شیشے، اسٹیل اور سیرامک کے بجائے ہاتھ سے بنی اشیاء کو ترجیح دیتے ہیں۔