شارٹ کٹ افسانہ

سبزار احمد بٹ

نجم الدین اور دلاور بچپن سے ہی بہت اچھے دوست تھے لیکن گہری دوستی ہونے کے باوجود دونوں کی طبیعتیں جداگانہ تھیں۔ نجم الدین ایک شریف، سادہ، ایماندار اور صوم و صلواۃ کا پابند انسان تھا جبکہ دلاور چالباز، شاطر اور سٹے باز آدمی تھا۔نجم الدین زندگی کی حقیقتوں کو سمجھتا تھا اوردکانداری کر کے اپنا گھر چلاتا تھا۔اُسکے دو بچے تھے جو سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے جبکہ دلاور زندگی کو ایک کھیل سمجھتا تھا بڑےبڑے خواب دیکھتا تھا اور ہمیشہ امیر بننے کا شارٹ کٹ راستہ تلاش کرتا تھا۔ لوگوں کا پیسہ مختلف بہانوں سے ہڈپتا تھا اکثر جوا کھیلتا تھا اور جیت بھی جاتا تھا۔ نجم الدین اپنے گاؤں سے تقریباً آٹھ کلو میٹر کی دوری پر دکانداری کر کے گزر بسر کرتا تھا اور عزت کی زندگی جیتا تھا۔ ایک دن نجم الدین دکان بند کر کے گھر لوٹا تو گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی نے آسمان سر پر اٹھایا ۔آگئے صاحب زادے ۔کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ اس دکان داری سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔اپنے دوست کو ہی دیکھو گھر میں ہر سہولیت کا سامان موجود ہے۔سنا ہے بیوی کے لیے الگ گاڑی لائی ہے اور بچے دیکھو کتنے بڑے اسکول میں پڑھتے ہیں اور میری قسمت دیکھو۔ مجھے آج بھی چولہا جلانا پڑتا ہے اور آج بھی روشنی کے لیے شمع جلانی پڑتی ہے۔ میں آج بھی ہاتھوں سے کپڑے دھوتی ہوں ۔شادی سے پہلے کیا کیا خواب دیکھے تھے میں نے۔ہائے رے میری قسمت ۔نجم الدین یہ سب بڑی خاموشی سے سن رہا تھا ۔اس کی خاموشی سے بیوی اور بھی آگ بگولا ہوئی ۔ہاں ہاں تم کہاں جواب دو گے۔تم کہاں میری بات سنو گے۔اب جا کے نجم الدین نے خاموشی توڑی ۔تم ہی بتاؤ میں کیا کروں ؟
۔دلاور دو نمبری کام کرتا ہے۔سٹا کھیلتا ہے اور وہ سینکڑوں لوگوں کا مقروض ہو چکا ہے۔۔مجھے راتوں رات امیر بننے کا شوق نہیں ہے۔صبر سے کام لو۔سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔میرا سر دکھ رہا ہے ۔چائے کی سخت طلب لگی ہے۔ بیوی نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا،ٹھہرو بناتی ہوں یہاں کون سا گیس کا چولہا ہے جس پر فوراً چائے تیار ہو جائے ۔نجم الدین رات بھر بیوی کی باتوں پر سوچتا رہاکہ یہ وہی بیوی ہے جس نے ہر مصیبت میں میرا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا اور آج دلاور کی دو نمبری دولت دیکھ کر اس کا من للچایا اور اس نے آج کیا کیا سنایا ۔اب ہر روز نجم الدین کو بیوی کے طعنے سننے کی عادت سی پڑ گئی۔لیکن وہ اپنے ارادے کا پکا تھا اور کسی بھی صورت میں کوئی ایسا ویسا کام کر کے دولت نہیں کمانا چاہتا تھا۔ نجم الدین ایک نیک انسان ہے اس بات کو نہ صرف اس کا پورا گاؤں تسلیم کرتا تھا بلکہ دلاور خود بھی اس بات کا معترف تھا۔ ایک دن نجم الدین اپنی دکان پر ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا کہ اچانک سے دکان کے آگے ایک اعلیٰ قسم کی گاڑی رکی۔جس میں سے دلاور اترا اور اپنے دوست نجم الدین سے بات کرنے لگا۔دوست کہا تھا نا میرے دھندے میں شامل ہو جا۔ہمیشہ کے لیے اس جھنجھٹ سے نجات مل جاتی۔نہیں دلاور نہیں میرا مشورہ ہے کہ تم بھی یہ سب چھوڑ دو اور کوئی ڈھنگ کا کاروبار شروع کر دو اس میں کافی ۔۔۔۔
۔دلاور نے قہقہہ لگایا اور نجم الدین کی بات کاٹتے ہوئے کہا کوئی خطرہ نہیں ہے یار ۔جن سے خطرہ ہے ان کو بھی اپنا حصہ دے دیتا ہوں ۔خیر آج یہ کہنے آیا ہوں کہ تم بڑے نیک انسان ہو۔آج میرے لیے بھی دعا کرنا ۔میں نے دو کروڑ کی بازی لگائی ہے۔
دو کروڑ لیکن اتنے پیسے۔۔۔۔۔۔۔۔نجم الدین کی زبان بے ساختہ نکل گیا
۔دلاور ۔۔بس اپنی پوری زمین، مکان، اور باقی چیزیں ملا کر اتنا بنتا ہے لیکن گھبراو مت، بھلا میں کبھی ہارا ہوں ۔بس تم دعا کرنا یہ کہہ کر دلاور نکل گیا۔نجم الدین سوچوں میں گم ہو گیاکہ اس کے دوست نے یہ کیسی حماقت کی ۔اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔برباد ہو جائے گا برباد۔ اگلے دن نجم الدین حسبِ معمول شام کے وقت گھر پہنچا۔پورے گاؤں میں خاموشی چھائی تھی اور لوگ دیواروں تلے بیٹھ کر چمیگوئیاں کر رہے تھے ۔گاؤں کے بچے تک سہم کر رہ گئے تھے نجم الدین حیران تھا کہ آخر ہوا کیا ۔خیر بنا کسی سے کچھ کہے اپنے گھر میں داخل ہوا ۔آج زلیخا بھی بہت خاموش تھی اور آج اس نے وہ کہانی نہیں سنائی جسے سننے کے لیے نجم الدین کے کان ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔غیر متوقع طور پر بیوی کو خاموش پا کر نجم الدین حیران رہ گیا۔آج بیوی نے بنا کہانی سنائے اور بنا طعنے دئے چائے حاضر کر دی اور شوہر کے سامنے دو زانو بیٹھ گئ۔نجم الدین نے بیوی سے کہا ۔کیا بات ہے اتنی پریشان کیوں ہو ؟ اور بچے کہاں ہیں ۔؟
یہ کہنا تھا کہ زلیخا نجم الدین کی گود میں سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔آخر ہوا کیا کچھ تو بتاؤ؟۔کچھ نہیں میرے سرتاج میں آج تک تمہیں طعنے دیتی رہی کہ تم اس گھر کے لیے کچھ نہیں کرتے ہو اور دلاور ترقی کر رہا ہے لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کیا، کیا ہوا دلاور کو۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاور نے دوکروڑ کا سٹا لگایا تھا اور ہار گیا۔پورے گاؤں کے سامنے اس کے گھر کی نیلامی ہوئی ۔قرضداروں نے ہنگامہ بپا کر دیا ۔ دلاور سب کے سامنے ذلیل ہو گیا۔گاڑی، بنگلہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ باپ بیٹے کو پولیس اٹھا کر لے گئی ۔ دلاور کی بیوی مہرین نے رو رو کر اپنا برا حال کیا۔مجھے ایسی دولت اور شہرت نہیں چاہئے۔ ہمارے پاس جتنا ہے میں اسی میں خوش ہوں ۔اب میں کبھی شکایت نہیں کروں گی۔۔
نجم الدین لمبی سانس لیتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں برے کام کا برا نتیجہ، دلاور کو راتوں رات امیر بننے کا بھوت سوار ہوا تھا ۔بڑے خواب دیکھتا تھا لیکن خوابوں کا یہ محل شیشے کا تھا جو ایک دم چکنا چور ہوگیا۔کتنی بار اسے یہ بات سمجھا چکا ہوں لیکن جب ایک انسان کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھ جاتی ہے تو اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔میں تمہیں بھی کہتا تھا کہ ترقی کے زینے قدم بہ قدم چڑھتے جائیں گے اسی میں ہمارا فائدہ ہے ۔دیکھا تم نے امیر بننے کے شارٹ کٹ طریقے کا انجام۔
نجم الدین ابھی بات ہی کر رہا تھا کہ اتنے میں بجلی چلی گئی لیکن زلیخا نے آج اپنی قسمت کو نہیں کوسا اور نہ ہی گھر میں انواٹر(Inverter) نہ ہونے کی شکایت کی بلکہ شمع جلائی اور اپنے شوہر کے نورانی چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی۔ایک طرف سے شمع جل رہی تھی اور موم کے قطرے ٹپ ٹپ کر کے گر رہے تھے اور دوسری طرف سے زلیخا ندامت اور شرمندگی کے آنسو بہا رہی تھی۔
���
اویل نورآباد، کولگام