! سیول سروسز امتحانی نتائج  | خوشی کا اظہار بجا لیکن یہ انتہا نہیں

چند روز قبل جموںوکشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروسزامتحانات کے نتائج ظاہر کئے گئے جن میں 187 امیدواروں کو کامیاب قرار دیاگیا اور اب وہ جموںوکشمیر کی انتظامی ،پولیس اور اکائونٹس سروس میں شامل ہونگے ۔اس امتحان میںکچھ امیدواروں کی کامیابی واقعی لائق تحسین تھی کیونکہ وہ انتہائی پسماندہ بیک گرائونڈ سے آئے تھے اور انہوںنے اس کے باوجود ہمت نہ ہارتے ہوئے محنت جاری رکھی جس کا انہیں صلہ بھی مل گیا اور وہ اپنی منزل پا گئے تاہم بیشتر امیدوار وںکا فیملی بیک گرائونڈ بہت اعلیٰ ہے اور ان کے خاندانوں میں پہلے ہی والدین یا بہن بھائی ایسے امتحانات کوالیفائی کرچکے ہیںتاہم بحیثیت مجموعی اس کامیابی کو اس طرح کے پیمانوں سے آنکا نہیں جاسکتا اور جس بھی امیدوار نے یہ میدان مارلیا ،وہ واقعی ستائش کا مستحق ہے اور ستائش ہونی بھی چاہئے تاہم جس طرح سے گزشتہ تین روز سے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مقامی سیول سروسز امتحان میں امیدواروں کی انفرادی پر جشن منایاجارہا ہے ،وہ غیر منطقی سا لگ رہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایسے امیدواروں کی بہت بڑی کامیابی ہے تاہم یہ ان کی خالصتاً انفرادی کامیابی ہے جس کے سماج پر مجموعی اثرات بہت کم پڑیں گے۔ایسا تاثر دیاجارہا ہے کہ بس یہی لوگ کامیاب ہیںا ور ایسے امتحانات میں کوالیفائی نہ کرنے والے اور دیگر سبھی نوجوان اور لوگ ناکامیاب ہیں ۔ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ہمارے گرد وپیش میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جنہوںنے اپنے اپنے شعبوں میں کامیابی حاصل کی ہواور اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا ہو۔ایک صفائی کرمچاری سے لیکر ایک اعلیٰ ترین سیول سروس آفیسر تک سب اپنی حیثیت میں اُس حد تک کامیاب ہیں،جب تک اُنہیں اطمینان حاصل ہو۔امتحانات میں کامیابی ہی کامیابی کا اکیلا پیمانہ نہیں ہے ۔اصل کامیابی حقیقی انسان بننا ہے ۔اس قلیل مدتی زندگی میں کامیاب و کامران وہ شخص ہے جس سے اُس کا خالق اور مخلوق راضی ہوں۔اب اگر یہ پیمانہ لگایاجائے تو خال خال ہی کامیابی نظر آجائے گی ۔مسابقتی امتحانات میںکامیابی کو گلوریفائی کرنے کا یہ طریقہ کسی بھی طو ر مستحسن نہیںہے ۔بلا شبہ ہم خوشیاں منائیں لیکن یہ یاد رکھناچاہئے ایسے امتحانات کوالیفائی کرنے والے پھر سسٹم میں گُم ہی ہوجاتے ہیں اور سسٹم کے کل پرزے بن کررہ جاتے ہیںجبکہ ہم نے ایسے لوگوںکو بھی دیکھا ہوا ہے جو کسی سروس میں نہیں ہیں لیکن اُنہوںنے اتنا نام کمایا ہوا ہے کہ مرنے کے صدیوں بعد بھی لوگ انہیں یاد کرتے ہیں۔سیول سروسز امتحانات میں نوجوانوں کی زیادہ سے شرکت اچھی بات ہے کیونکہ اس سے مسابقت آرائی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نوجوانوںکی توانائیوںکو بھی صحیح سمت مل جاتی ہے تاہم ان کو ہی ہم رول ماڈل بنائیں تو یہ انصاف نہیں ہے ۔ہمارے لئے رول ماڈل وہ لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے سماج کو کچھ دیا ہو اور جن کی وجہ سے سماج میں مثبت تبدیلیاںرونما ہوئی ہوں۔مشاہدے میں آیا ہے کہ انتہائی ذہین ترین نوجوان بھی سیول سروسز میں شامل ہوکر اپنی اختراعی صلاحیتیں کھو جاتے ہیں کیونکہ وہاں اُنہیں ’’سسٹم ‘‘کے اندر رہ کر ہی کام کرناپڑتا ہے اور اپنی خواہشوںکا گلا گھونٹ کراُسی نظام کے تابع چلنا پڑتا ہے جو نظام رائج ہو۔جبکہ اس ’’سسٹم ‘‘سے باہر ایسے لوگو ں کی کمی نہیںجنہوںنے اپنی صلاحیتوںکو سماج کی بہبود کیلئے بروئے کار لایا اور نہ صرف سماج کو کچھ دے کر چلے گئے بلکہ رہتی دنیا تک اپنی چھاپ چھوڑ کر بھی چلے گئے۔اسلئے اس طرح کے مسابقتی امتحانات کوضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کی بجائے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم کس طرح اپنی انفرادی کامیابی کی بجائے سماج کی اجتماعی کامیابی کا باعث بن سکیں۔ سماج میں کسی ایک فرد کی کاوش سے رونما ہونے والی ایک چھوٹی سی مثبت کاوش بھی اُس بڑی سے بڑی کامیابی سے بھی بڑی ہے جو کسی فرد نے انفرادی سطح پر حاصل کی ہو۔ویسے بھی حالیہ مقامی سیول سروسز امتحانات نتائج پر ڈھول پیٹنے کی بجائے اگر ہم ان نتائج کا پوسٹ مارٹم کرتے تو ہماری خوشیاںکافور ہوچکی ہوتیں اور جشن منانے کے بجائے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہوتے کہ آخر اجتماعی سطح پر ایسا کیا ہوا کہ اس بار مقامی سیول سروسز کی تاریخ میں پہلی بار کشمیر صوبہ کے سب سے کم امیدوار یہ امتحان کوالیفائی کر پائے ہیں۔انفرادی کامیابیوںپر جشن منانے سے زیادہ اس اجتماعی ناکامی پر غور وفکر کرنا زیادہ ضروری تھالیکن چونکہ ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم رو میںآکربہہ جاتے ہیں ،ہم اتنی باریکیوںمیںجانے کی زحمت ہی نہیںکرتے ہیں۔وقت آچکا ہے جب ہمیںاس تنزلی پر غور کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی اس طرح کے امتحانات اورا ن کے نتائج کو سماجی رویوںسے الگ کرنا ہوگا۔یہ امتحانات قطعی طور کامیابی کا پیمانہ نہیں ہے اور ان امتحانات سے آگے دنیا بہت بڑی ہے جہاں اصل امتحان ہے ۔انفرادی کامیابیوںپر خوشی کا اظہار ضرور کریں لیکن ایسا کرکے ایسا تاثر بھی نہ دیں کہ باقی بچے سارے لوگ ہی ناکام ہیں۔اصل کامیابی کیلئے کوششیں کریں اور وہ کامیابی جبھی نصیب ہوگی جب ہم کچھ ایسا کرجائیں جس سے ہمارے سماج کا بھلا ہو اور ہمارا خالق بھی ہم سے راضی ہو۔