سیرت طیبہ ؐ اور ذریعہ معاش ! زراعت و تجارت اورصنعت و حرفت

بلال احمد پرے

سیرتِ طیبہ ؐ میں نہ صرف حضرت نبی اکرم ؐ کی اپنی انفرادی حیات مبارک میں ذریعہ معاش کمانے کی تعلیم ملتی ہے بلکہ آپؐ نے اپنے جانثار صحابہ کبارؓ کو بھی یہی سبق سکھلایا گیا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے حلال اور با عزت روزگار کمانے کا اسباب اختیار کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے کہ ’’ فرائض کے بعد کسبِ حلال کی تلاش بھی فرض ہے۔‘‘ (البیھقی، مشکوٰۃ؛ 2781)
حاجی صاحبان کو اس بات کا خوب مشاہدہ ہوگا کہ مکہ المکرمہ اور مدینہ طیبہ میں جونہی اذان ہوتی ہے تو ہر طرف لوگ فرض نماز ادا کرنے چلیں جاتے ہیں ۔ وہ اپنا کاروبار وہاں ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’’اور دن کو ہم نے روزگار کمانے کے لئے بنایا ۔‘‘ (النباء: 11)
اللہ تعالیٰ نے یہاں انسانیت کو دن کے روشن اوقات میں محنت و لگن سے اپنی معاش کمانے کے لئے اشارہ فرمایا ہے ۔ یہاں رات کی تاریکی کو خوب نیند کرنے اور دن کی روشنی کو زمین پر محنت و جستجو کرنے کو فرمایا گیا ہے ۔ یعنی اپنے لئے اور اپنے عیال کے لئے معاش تلاش کیا کرنے کی طرف خوبصورت انداز میں اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ درحقیقت یہ ہمارا رب ہی ہے جو ہمیں آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے پیداوار دے کر رزق (یونس:31) دے دیتا ہے ۔
اللہ کے آخری نبیؐ نے ایک موقع پر کسی صحابیؓ کو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے دیکھا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو صنعت و حرفت کی حالت میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد آپؐ نے انصار جو کہ زمیندار تھے کو اس کی کاشتکاری کی ترغیب دی اور مہاجرین جو تجارت پیشہ تھے کو تجارت کے فضائل بیان کر کے اس کی طرف متوجہ فرمایا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اصحاب رسولؐ گرافٹنگ، پولینیشن جیسے جدید ٹیکنالوجی کی حد تک پہنچ چکے ہیں ۔
بڑی گہرائی سے مطالعہ کرکے دیکھا گیا ہے کہ زراعت (Agriculture) وہ شعبہ ہے، جس کی ابتداء سے ہی بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق رہا ہے ۔ کیونکہ زراعت کا معاملہ براہِ راست انسان کی شکم پری سے وابستہ ہیں ۔ زراعت کی ہر وقت اپنی ایک خاص اہمیت رہی ہے اور یہ کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ہم نے تمہیں زمین میں اختیار دیا اور تمہارے لئے اس میں سامانِ معیشت (اسبابِ زیست، معاش کی راہیں) بنایا، مگر تم لوگ کم ہی شکر ادا کرتے ہو ۔‘‘ (الاعراف؛ 10)
اس طرح سے کھیتی باڑی، باغبانی، گلہ بانی، کچن گارڈن وغیرہ سے زمین کو آباد کر کے معاشی حالت مستحکم بنائی جا سکتی ہے ۔ مہاجر اور انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مل کر کھجوروں کی کاشت کاری میں اس قدر محنت کیں کہ خوب پیداوار حاصل ہو گیا ۔ حضرت نبی اکرمؐ نے آپس میں نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ اگر کسی کے پاس زمین ہے تو وہ اسے خود کاشت کرے ورنہ کاشت کیلئے اپنے بھائی کو دیں دے اور اسے بٹائی یا ٹھیکہ پر نہ دے۔‘‘ (صحیح المسلم)
حضرت یوسف علیہ السلام کا قصّہ جب یاد کرتے ہیں تو وہاں بھی زراعت کا معاملہ ہی اولین درجہ پر نظر آتا ہے ،جس سے اس وقت قحط پڑنے پر سرِ زمینِ مصر کی اقتصادی ترقی کو گرنے سے بچایا گیا ہے اور دیگر قریبی علاقوں کے لئے اناج کی دستیابی مہیا رکھی گئی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ یوسفؑ نے کہا کہ آپ مجھے ملک کے خزانوں کے انتظام پر مقرر کر دیجئے ۔ یقین رکھیے کہ مجھے حفاظت کرنا خوب آتا ہے، اور میں اس کام کا پورا علم رکھتا ہوں ۔‘‘ (یوسف؛ 55)حضرت یوسف ؑ کی یہ تدبیر کہ خوشحالی کے سات سالوں میں جتنا غلہ اُگے، اُس میں سے تھوڑا تھوڑا تو اپنے روز مرہ کے کھانے کے لئے نکال لیا جائے، اور باقی غلے کو اُس کی بالیوں (بطورِ زخیرہ) ہی میں پڑا رہنے دیا جائے، تاکہ وہ سڑ کر خراب نہ ہو پائیں بڑی مؤثر ثابت ہوئی ۔ اس تدبیر سے قحط کے سات سالوں میں ذخیرہ کردہ اناج اُس وقت کام آیا، جب قحط سے ہر طرف ہاہا کار مچ گئی تھی ۔
اس طرح کاشتکاری اور زراعت کے شعبہ میں سرگرم عمل رہنے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم خود اپنی زمین جوتیں، بیج بوئیں اور فصّل کاٹیں بلکہ جدید دور کے ذرائع و وسائل کو بروئے کار لا کر زراعت سے اپنا ذریعہ معاش بہتر طریقے سے کما سکتے ہیں ۔ اور جدید طرز کی کیمیائی کھادوں کا استعمال کرنے سے پیداوار بھی بڑھا سکتے ہیں ۔
حالانکہ زرعی یونیورسٹیوں نے اس ضمن میں کافی نئے تجربات کئے ہیں جس کے اپنانے سے ایک کاشت کار کو کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ آج کل زرعی یونیورسٹیوں میں ایسے ہی کئی اقسام کی فصّلوں پر تحقیق ہوتی رہتی ہے جنہیں تھوڑی سی زمین میں لگانے پر بہت زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے اور معقول قیمت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ اِنہی فصّلوں میں چاول کی ایک خاص قسم مُشک بدیج (mushk-budj) ہے یا کیمیائی خوشبو دار پودے (Aromatic Plants) ہیں ۔ محکمہ زراعت اب ریڈ رائس زگ، کامڈ (Kamad) جیسی اقسام کی بحالی پر اپنی توجہ مرکوز بنائے رکھی ہوئی ہے ۔
تجارت کے بعد زراعت سے وابستگی کا پیشہ افضل ہے ۔ زراعت کے متعلق حدیث مبارک میں آیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرمؐ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ’’ کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے ۔‘‘ (مشکوٰۃ؛ ۱۹۰۰)ہمارے یہاں دیہاتوں میں اکثر و بیشتر لوگ زراعت سے وابستہ ہیں جن کی معاشی آمدن زمین کی کاشتکاری سے حاصل ہوتی ہے ۔ جب کہ چھوٹے بڑے قصّبوں اور شہروں کے لوگ اکثر تجارت پیشہ ہیں ۔
تاریخ اسلام میں مردوں کے علاوہ خواتین کی معاشی جدوجہد کی بھی زرین مثالیں ملتی ہیں ۔ جن میں چند کی ذکر کرنا یہاں مناسب سمجھتا ہوں ۔ حضرت اسماءؓ بنت مخزمہ جو عطر کا کاروبار کرتی تھیں سب سے نمایاں ہیں ۔ ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ان کا بیٹا عبداللہ بن ربیعہؓ یمن سے عطر خرید کر اُنہیں بھیجا کرتا اور وہ اسے فروخت کرتی تھیں ۔ (اسد الغابۃ)
اسی طرح حضرت خولہ بنت قیسؓ اس قدر عطر فروخت کرتی تھی کہ وہ ’’ عطّارہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی تھیں ۔ حضرت کمبلہؓ بھی عطر فروشی کا کام کرتی تھی ۔ آج کے دور میں تجارت ایک وسیع میدان بن گیا ہے جس میں عورتوں کے متعلق بے شمار اشیاء شامل ہیں ۔ خواتین اگر عورتوں کے ملبوسات، حجاب، زیب و زینت کی دیگر چیزیں، سونے کی دکان، چوڑیاں، مہندی یا دیگر ضرورت کے اشیاء کا کاروبار کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں شرم و حیاء کا دامن بھی برقرار رہے گا ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اہلیہ حضرت زینبؓ کاریگری (craftsman) کے ذریعے اپنے شوہر و بچوں کے اخراجات پوری کرتی تھیں ۔ حضرت سہل بن سعدؓ سے منقول ہے کہ ’’ ایک عورت پیارے آقا نامدارؐ کے پاس ایک چادر تحفہ کے طور لے کر آئی جس کے کنارے بُنے (کشیدہ کاری) ہوئے تھے ۔‘‘ (صحیح البخاری)
ہمارے یہاں وادئ کشمیر میں چادر کے بُننے کا کام بہت پہلے کا رواج تھا ، جو اب رفتہ رفتہ ختم ہو چکا ہے ۔ حالانکہ اس طرح کی دستکاری کو revive کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اسی طرح تابعین میں سے حضرت نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہؒ ( 80 – 150) جو نہ صرف اپنے وقت کے عظیم المرتبت تابعی بلکہ علم فقہ کے اعلیٰ محقق مانے جاتے ہیں ۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک بہت کامیاب تجارت پیشہ شخصیت بھی ہے، امیر تھے اور ایک خوشحال کاروبار چلاتے تھے۔ آپ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھےاور اپنے وقت کے بلند پایہ کاروباری (Entrepreneur) شخصیت تھی ۔
علماء اور صوفیا میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ دین ِ اسلام کے مبلغ، داعی،ولی کامل، عالم و عابد کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے کپڑے کے اعلیٰ تاجروں میں شمار ہوتے تھے ۔ حضرت حسن بصریؒ موتیوں کی تجارت کیا کرتے تھے ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ دولت میں اپنی مثال آپ تھے ۔ آپؒ کے پاس بڑے خوبصورت اور قیمتی گھوڑے ہوتے تھے جنہیں طلائی میخوں سے بندھا کرتے تھے ۔
وادئ کشمیر میں حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان ؒ کی تشریف آوری ہونا نہ صرف یہاں دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا پتہ دیتی ہیں ۔ بلکہ تواریخی حقائق سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ ؒ نے اپنے ساتھ مختلف دستکاروں، صنعت کاروں اور پیشہ ورانہ ماہروں کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا ،جنہوں نے یہاں کے لوگوں کو اس وقت مختلف پیشوں میں ہنرمند بھی بنایا ۔ اور اس طرح سے یہاں ایک صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) برپا ہوا ۔ اور اس وقت کے معاشی بحران (Economic Crisis) کا مقابلہ بڑی ہی ہنرمندی سے کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ سرینگر کے اکثر و بیشتر محلوں کے نام اُنہی کاریگروں کے پیشہ سے منسوب ہیں ۔
حضرت شیخ داؤدؒ المعروف بھتہ مالو ابتداء میں اس قدر کھیتی باڑی کرنے لگے کہ چاول کی دیگیں اور سالن پکا کر مسافروں، مسکینوں اور بھوکوں کو کھلایا کرتے تھے ۔ جس پر آپ ؒ ’’بھتہ مول‘‘ یعنی چاول کھلانے والا کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ نے بھی ابتدائی زندگی میں زراعت کو اپنا معاشی اسباب اختیار کیا تھا ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ ایک انسان کو اپنے ہاتھوں سے کمائی کرنی چاہیے ۔ تاکہ وہ دنیا میں ایک خوشحال زندگی گزار سکیں اور دین دار کے ساتھ ساتھ دنیا دار بھی بن سکے ۔ دنیا تو آخرت تک پہنچنے کی زادِ راہ ہے ۔ اسی لئے قرآن کریم نے یہ دُعا سکھلائی کہ ’’ یا اللہ ہمیں دُنیا کی بھلائی بھی اور آخرت کی بھلائی بھی (البقرہ) عطا فرما ‘‘ کیونکہ دینِ اسلام میں ترکِ دنیا کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے ۔ لہٰذا انسان کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنا ذریعہ معاش خود کمانا چاہئے ۔ (ختم شد)
(ہاری پاری گام ترال،رابطہ ۔ 9858109109)
[email protected]