سیج کہانی

رحیم رہبر

مُجھے یاد ہے اور اچھی طرح یاد ہے جب اُس دِن شہر کے معروف ترین چوک میں حبہ خاتون اچانک نمودار ہوئی۔ میری یخ بستہ نگاہیں موم کی طرح پگھل گئیں۔ اُس نے اپنے یوسف کی تصویر گلے میں لٹکائی تھی۔ وہ لوگوں سے بھرے اس چوک میں کچھ تلاشتی تھی۔ اس کی اَنوکھے حرکات دیکھ کر تماشہ بین لوگ آپس میں چہ مہ گوئیاں کرنے لگے۔ کچھ لوگ اس کے بے مثال حُسن کو دیکھ کر سکتے میں پڑ گئے!
‘‘اس مصروف ترین چوک میں حبّہ خاتون کیا ڈھونڈ رہی ہے؟‘‘ میں نے اپنے دوست وسیم سے پوچھا۔ جو صبح سے ہی میرے ساتھ اس چوک میں تھا۔
’’بے چاری یوسف کو ڈھونڈ رہی ہے۔‘‘ وسیم نے دفعتاً جواب دیا۔
’’لیکن۔۔۔۔ لیکن یوسف کو ایک زمانہ۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’ہاں۔۔۔۔ہاں ہاں مجھے معلوم ہے۔۔۔۔سب کچھ معلوم ہے۔ سینکڑوں سال قبل شہنشاہ اکبر نے اس کو قید کیا تھا۔‘‘
وسیم نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’پھر۔۔۔پھر یہ۔۔۔یہ کیا تماشہ ہے؟۔۔۔یہ کیا ڈراما ہے؟‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ڈراما۔۔۔!؟‘‘ وسیم نے انہماک سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں ہاں ڈراما نہیں تو اور کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دراصل حبّہ خاتون شہرِ سیاہ کے کربناک حالات سے اُکتاگئی ہے۔ اس چوک میں غم زدہ لوگوں کے چہروں پر اُداسیاں دیکھ کر حبہ خاتون پریشان ہے۔ اب وہ یوسف سے فریاد کرنے اس چوک میں آئی ہے۔‘‘
’’احمق۔۔۔اس چوک میںیوسف کہاں آئے گا۔۔۔ کہاں وہ عیاش بادشاہ اور کہاں ہم بے بس لوگ۔۔۔ ‘‘ میں نے غصے میں وسیم سے پوچھا۔
’’یوسف آئے گا۔۔۔ ضرور آئے گا۔ بادشاہ کے دل میں رعایا کا غم بسا ہوتا ہے۔ رعایا بادشاہ کی اولاد ہوتی ہے۔ بادشاہ کی خوشی کا دارومدار رعایا کی خوشی پر ہوتا ہے۔ رعایا کی خوشی بادشاہت کی خوشی ہوتی ہے اور جب رعایا مغموم ہوتو بادشاہ کا مغموم ہونا لازمی بنتاہے۔‘‘
’’ارے نادان وسیم! خدارا مجھے بتائو بادشاہ اس ویران چوک میں ہی کیوں آئےگا۔۔۔ وہ اپنے محل میں کیوں نہیں آئے گا؟‘‘
وسیم نے ایک لمبی سانس لی اور کہا۔
’’دراصل چوک میں انسان ایک دوسرے کے حالات و واقعات سے واقف ہوجاتے ہیں۔ اس چوک میں کئی اطراف سے مختلف مزاج رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔ کچھ خریداری کرنے کے لئے آتے ہیں اور کچھ اپنا مال فروخت کرنے کے لئے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس بھرے بازار میں خالی ہاتھ آتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی اپنی کہانیاں لے کر اس چوک میں آتے ہیں۔ پھر اس چوک سے نئی کہانیاں اپنے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں!۔‘‘
یہ چوک ایک سٹیج کی مانند ہے۔ جس پر لوگ زندگی کا ڈراما کھیلتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کے تخلیق کار، پیش کار، کردار، ڈراما دیکھنے والے اور پھر اس ڈرامے پر تبصرہ کرنے والے ہم ہی لوگ ہیں۔ حبہ خاتون کو اپنے بادشاہ پر اعتماد ہے۔ وہ ڈراما دیکھنے کے لئے اس چوک میں ضروری پہنچے گا۔ رعایا کی محبت اس کو بِسوک گائوں، پانچ سو گھوڑے سواروں کی منصب داری شہنشاہ اکبر کو واپس کرنے کے لئے مجبور کرے گی۔ یوسف شاہ چک کو بادشاہ کا کردار نبھانے کے لئے اس چوک میں آنا ہی آنا ہے‘‘۔
’’لیکن یوسف شاہ چک22سمبر1593عیسوی جگن ناتھ پوری اُڑیسہ میں چل بسے اور بہار کے ایک گائوں بسوک میں سپرد خاک کئے گئے!؟‘‘۔ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’آپ کا کہنا بجا ہے۔۔۔ پر تمہارے ادراک کا دریچہ ہنوزنگ آلودہ ہے‘‘۔ وسیم نے جواب دیا۔
’’میں سمجھا نہیں‘‘۔ میں نے بولا۔
’’میں سمجھاتا ہوں۔۔۔ نادان میری مُراد جسدِ خاکی سے نہیں ہےبلکہ روح سے ہے، روح لافانی ہے۔‘‘
ہماری گفتگو سُن کر حبہ خاتون کے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ رقصاں ہوئی اور اچانک اس کے دل سے آہ نکلی اور اپنی درد بھری آواز میں خود سے گنگنانے لگی ؎
’’واروین ستی وار چھیس نو چار کر میون مالہ نو ہو‘‘ (سسرالیوں کے ساتھ میری بنتی نہیں، کچھ چارہ کرلو میرے مائیکے والو)
’’یار! حبّہ خاتون کی آواز ابھی بھی سُریلی ہے‘‘۔ میں نے وسیم سے کہا۔
’’اس کا حسن بھی ابھی تک تازہ دم ہے دوست‘‘۔ وسیم حیرانگی میں بولا۔
پاس ہی ایک بزرگ شخص جو ہماری گفتگو سُن رہا تھا ہم پر خوب ہنسا۔
’’آپ کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ میں نے اس بزرگ شخص سے پوچھا۔
’’تمہاری نادانی پر!‘‘۔ وہ شخص بولا
’’ہم سمجھے نہیں‘‘۔ ایک آواز میں ہم نے اس بزرگ شخص سے کہا۔
بزرگ نے ہم دونوں کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا۔
’’آپ لوگ اس چوک میں جس عورت کو حبّہ خاتون سمجھ بیٹھے ہیں وہ حبّہ خاتون نہیں ہے۔۔۔ یہ عورت دراصل زعفران کی بیٹی ہے۔ زعفران کی زمین پر خود غرض لوگ بڑے بڑے محل تعمیر کررہے ہیں۔ اس طرح زعفران کی کاشت دن بہ دن زوال پذیر ہورہی ہے۔ اسی غم سے نڈھال ہوکر زعفران کی یہ بیٹی اس چوک میں اچانک وارد ہوئی ۔ یہ عورت اس چوک میں اپنا احتجاج درج کرنے آئی ہے۔۔۔!

���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ، بیروہ بڈگام
موبائل نمبر؛9906534724