سیاحتی نقشے کے منتظر سیاحتی مقامات روئیداد

سید بشارت الحسن ۔پونچھ
کشمیر کو اکثر زمین پر جنت کے طور پر جانا جاتا ہے۔جموں وکشمیر ایک زمانے میں ہندوستان میں برطانوی دور حکومت میں ایک شاہی ریاست تھی ،جہاں اس وقت اور اس سے قبل بھی بیرونی ممالک سے سیاح آیا کرتے تھے۔ اس وقت جموں وکشمیر اپنی خوبصورتی اور یہاں کے سیاحتی مقامات کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک پہچان بنائے ہوئے ہے۔ جموں وکشمیر میں سیاحتی مقامات کی کوئی کمی نہیں اور محکمہ سیاحت ان مقامات کو فروغ دینے میں کاوشیں بھی کر رہا ہے۔یہاں سرینگر ہندوستان کے سب سے پرکشش سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ جموں و کشمیر کی متحرک اور متنوع ثقافت ہندو، فارسی، اسلامی، سکھ، بدھ مت کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ثقافتوں کا امتزاج ہے۔جموں وکشمیر میں سیاحتی مقامات پر ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص سیر کرنے کیلئے بے چین رہتا ہے اور یہاں کی خوبصورتی یقینا ًجنت ارضی ہے۔ وادی کشمیر کے سیاحتی مقامات کے علاوہ جموں میں بھی سیاحتی مقامات کی کوئی کمی نہیں ہے۔سری نگر میں ڈل اور نگین جھیل کے پر سکون پانیوں پر شکارا کی خوشگوار سواری اور ہاؤس بوٹ کے ساتھ ساتھ باغ گل لالہ یہاں کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔گلمرگ میں گنڈولا سواری بھی قابل دید اور داد ہیں۔ نتھہ ٹاپ، سناسر،بٹوت اور پتنی ٹاپ کی خوبصورتی بھی سیاحوں کو اپنی جانب مائل کر رہی ہے۔جموں اور کشمیر وادی کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہاں کے سیاحتی مقامات میں خطہ پیر پنجال بھی اپنا قلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
خطہ پیر پنجال میں قدرتی سیاحتی مقامات کے علاوہ مذہبی مقامات بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔مغلیہ سلطنت سے لیکر یہاں آج تک سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔بادشاہ جہانگیر اپنی ملکہ کے ہمراہ خطہ پر پنجال سے وادی کشمیر آیا جایا کرتے تھے ،جہاں آج بھی ان کی ملکہ کے نام سے منسوب نوری چھمب ایک سیاحتی مرکز بنا ہوا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خطہ پیر پنجال میں سیاحتی مقامات کی ترقی کیلئے متعلقہ محکمہ کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن ابھی کئی ایسے مقامات ہیں جہاں محکمہ کی توجہ اپنی جانب مبذول ہونے کے منتظر ہیں۔ اگر ان مقامات پر محکمہ سیاحت توجہ دے تو مستقبل قریب میں ان مقامات پر بھی سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بحال ہو سکتا ہے، جس سے یہاں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ترقیاتی منظر نامہ بھی ترقی کر ے گا۔ خطہ پیر پنجال کے سرحدی ضلع پونچھ میں کئی ایک سیاحتی مقامات ہیں جہاں پر سیاحوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔ان میں نوری چھمب، تتاکوٹی، جموں شہید،پیر کی گلی، دہرہ گلی،لورن،ساوجیاں،تھان پیر،سائیں میراں باباؒ،بٹل کوٹ، ڈیرہ ننگالی صاحب، بڈھا امرناتھ، چکاندا باغ ٹریڈ سینٹر،جموں شہید،گرجن ڈھوک وغیرہ شامل ہیں۔لیکن ان کے علاوہ ضلع پونچھ میں بے شمار ایسے مقامات بھی ہیں، جن پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ضلع انتظامیہ، پونچھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اس جانب اپنی خصوصی توجہ بنائے ہوئے ہے اور مزید ان مقامات کو سیاحتی نقشے پرلانے کی ضرورت ہے جو محکمہ سیاحت کی توجہ کے منتظر ہیں۔ضلع ہیڈکورٹر پونچھ سے قریباً دس کلومیٹر کی دوری پر گاؤں کھنیتر آباد ہے۔اس گاؤں کو 2012ءمیں ماڈل گاؤں کا درجہ ملا تھا۔یہاں پر کئی ایسے سیاحتی مقامات ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔گاؤں میں کئی اولیائے اکرام کے مزارات ہیں جہاں زائرین کی آہ و جائی کا سلسلہ رہتا ہے اور پیر پنجال پہاڑی سلسلے میں یہ مقامات کئی پہاڑیوں پر ہیں جو سیاحتی مقامات کے طور پر بھی ترقی کر سکتے ہیں۔گاؤں میں زیارت ڈنی پیر ایک پہاڑی پر ہے جہاں تحصیل حویلی اور مینڈھر کے علاوہ دور دراز سے بھی زائرین کا آنا جانا رہتا۔واضح رہے یہ مقام تحصیل حویلی اور مینڈھر تحصیل کو بھی جوڑتا ہے۔یہ گاؤں کھنیتر کے بالائی پہاڑی سلسلہ پر ہے۔اس مقام کے پاس مرچی گڑھ نامی ایک جگہ جو قریباً سات گاؤں کے اوپر ایک چوٹی ہے۔یہ مقام بھی سیاحتی نقشے پر اگر لایا جائے تو یہاں ترقیاتی منظر نامے کو ایک رفتار ملے گی اور مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے۔
اس سلسلے میں ایک سماجی کارکن محمد عارف کا کہنا ہے کہ ڈنی پیر ایک ایسا مقام ہے جہاں بڑی تعداد میں زائرین کا آنا جانا رہتا ہے اور اس مقام کو سیاحتی نقشے پر لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ زیارت ڈنی پیر ایک پتھر سے پانی نکلتا ہے، جس کو جب پیاسا منہ لگا کر پینے کی کوشش کرتا ہے تب یہ پانی باہر آتا ہے۔بقیہ اوقات میں اس کی روانگی رُکی رہتی ہے۔انہوں نے کہاکہ زیارت ڈنی پیر کے آس پاس کئی ایسے زرخیز مقامات ہے جو گلمرگ اور پہلگام کی مشابہت رکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ گاؤں میں ڈنی پیر زیارت کے علاوہ کئی مزارات اور قدرتی سیاحتی مقامات ہیں جن پر متعلقہ محکمہ کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مرچی گڑھ ایک ایسا مقام ہے جس کو سیاحتی نقشے پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں مقامی صحافی سید انیس الحق بتاتے ہیں کہ گاؤں کھنیتر سے ایک سڑک چرون گلی کی جانب جاتی ہے جو تحصیل حویلی کو تحصیل مینڈھر کے ساتھ جوڑتی ہے اور یہ سڑک ڈنی پیر سے کچھ مسافت پر ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر اس سڑک کو ڈنی پیر زیارت کے نزدیک پہنچایا جائے تو سیاحوں کو یہاں پہنچنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ گاؤں میں کئی ایسے مقامات ہیں جن کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔گاؤں کھنیتر ایک تاریخی گاؤں ہے جہاں ایک تاریخی ڈھانچہ آج بھی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس گاؤں میں کبھی کسی کا دربار لگا کرتا تھا۔انہوں نے کہاکہ 1798ءکے لگ بھگ یہاں راجہ روح اللہ خان کا دربار بھی لگا کرتا تھااور اس مقام کو سیاحتی نقشے پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ بیان کرتے اس مقام کو آج کی دنیا جان سکے۔انیس کہتے ہیں گاؤں میں کئی ایسے مقامات ہیں جنہیں اگر سیاحتی نقشے پر لایا جائے تو یہاں کے ترقیاتی منظر نامے کو ایک تقویت مل سکتی ہے۔درحقیقت خطہ پیر پنجال میں سیاحتی مقامات کی کوئی کمی نہیں ہے اور متعلقہ محکمہ بھی اس جانب توجہ بھی دے رہا ہے لیکن متعلقہ محکمہ کو بقیہ سیاحتی مقامات جو اپنے آپ میں تاریخ چھپائے رکھے ہوئے ہیں یا ایسے مقامات جہاں سیاح پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں سیاحتی نقشے پر لانے کی ضرورت ہے جس سے سیاحوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہو گا اور یہاں ان مقامات کے گرد و نواح میں روزگار کے مواقع بھی بڑھیںگے۔(چرخہ فیچرس)