سپنا

کیا یہ سچ ہے؟ میں نے تم کو سچ مچ کھویا ہے؟ 
یا پھر اب تک ہوش کی حالت سے میں غافل ہوں 
تین برس اب بیت چکے ہیں جیسے سپنا تھا
سپنا ہی سمجھو سپنے سے یاد آیا مجھ کو
کل ہی تم آئے تھے پھر سے میرے سپنے میں
دھندلی یادوں کی مانند تم خود بھی دھندلے سے
دور کھڑے کونے میں بیٹھے خود سے روٹھے تھے 
میری نظروں سے اُوجھل ہونے کی کوشش میں
گویا میں نے حق تلفی کی تھی تیری شاید
ٹھیک وہی کیمپس وہ نوٹس بورڈ وہ سب طلبہ
جن سے پرچہ دے کے ہم پھر باتیں کرتے تھے
پگڈنڈی پہ دور تلک پھر دونوں چلتے تھے
لیکن اب تو کوئی میرے ساتھ نہیں آیا
سپنے میں بھی تم کو میں نے اپنا نا پایا
سپنے میں بھی تم کو میں نے اپنا نا پایا
 
عقیل ؔفاروق
طالب علم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
شوپیان،موبائل نمبر؛8491994633
 
 
 
 

قطعہ

جو نہ تشخیص مرض کی پرواہ کرے
طبیب وہ مرض کی کیا دوا کرے
بے راہ روی میں پنہاں راز کرونا
طبیب وہی جو اس راز کی دوا کرے
 
نواب الدین کسانہ
اُودہمپور،جموں،موبائل نمبر؛9419166320