سپاری افسانہ

طارق شبنم

ریل سے اتر کر ماجد کچھ لمحے ادھر اُدھر کے نظاروں سے لطف اندوز ہو کر خوش وخرم اپنے نئے دفتر کی طرف جانے لگا ،اس کی نئی نئی ترقی ہوئی تھی اورنیا عہدہ ملنے کے ساتھ ہی اس کا تبادلہ دوسرے شہر میں ہوا تھاجہاںوہ آج ہی ڈیوٹی جوائین کرنے جا رہا تھا ۔
’’ او مائی گا رڑ۔۔۔ یہ مصیبت یہاں بھی پہنچ گئی ہے‘‘۔
چلتے چلتے دفعتاًہاتھ میں لاٹھی لئے انسپکٹر شہباز کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے اورمُنہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے ۔اس نے گھبراہٹ کے عالم میں دائیں بائیں دیکھا اور چھپکے سے راستہ بدل کر نکل گیا کیوں کہ وہ کسی بھی حال میں انسپکٹر کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔بہر حال جوں توں کرکے وہ انسپکٹر کا سامنا کئے بغیر جب ریلوے سٹیشن سے باہر نکلا تو اس نے اطمینان کی سانس لی اور جلد ہی دفتر پہنچ گیا جو یہاں سے تھوڑی ہی دوری پر واقع تھا ۔
’’اس دن تو اقبال ٹو پی والا کی مہر بانی سے اس انسپکٹر سے میں بچ گیا تھا،اب اگر پھر سے اس کا سامنا ہوگیا تو کیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
نصف دن تک دفتری معاملات میں اُلجھے رہنے کے بعد فارغ ہو کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس کو انسپکٹر یاد آگیا اور وہ خود سے بڑ بڑاتے ہوئے سوچوں میں گم ہو گیا ،سال بھر پہلے کا واقع اذیت بن کر اس کے ذہن کے پردوں پر رقص کرنے لگا ۔
یہ ماجد کی شادی کا دوسرا ہی دن تھا کہ انسپکٹر شہباز ،جو ان دنوں ان ہی کے علاقے میں تعینات تھا ،اپنے چند محافظوں سمیت دندناتے ہوئے ان کے آنگن میں آدھمکا اور ماجد کو ڈھو نڈنے لگا۔
’’ انسپکٹڑ صاحب ۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟‘‘
ماجد کی ماں نے انسپکٹر کو غصے میں دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔
’’ماجد کے چوروں کے ایک گروہ کے ساتھ روابط ہیں اُسے پوچھ تاچھ کے لئے پولیس سٹیشن لینا ہے‘‘ ۔
’’نہیں صاحب ۔۔۔۔۔۔ میرا بیٹا ایسا نہیں ہے ‘‘۔
انسپکٹر کی بات سن کر اس کے پیروں تلے زمین شک ہونے لگی لیکن جلد ہی اس نے اپنے آپ کو سمبھالتے ہوئے کہا۔
’’وہ کیسا ہے کیا ہے ؟یہ سب پولیس سٹیشن میں پتہ چلے گا ،جلدی سے لائو اس کو‘‘ ۔
انسپکٹر نے سگریٹ کو شعلہ دکھا کر دھواں نتھنوں سے چھوڑ تے ہوئے کہا ۔
’’کیا بات ہے سر ۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
اسی لمحے ماجد ،جو ساری صورتحال سے بے خبر اپنی خواب گاہ میں فرط مسرت و انبساط میں اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ مستقبل کے خواب سجانے میں مصروف تھا،بھی باہر آیا اور انسپکٹر سے پوچھا ۔
’’اچھا تو تم ہی ما جد ہو ۔۔۔۔۔۔ چلو ہمارے ساتھ‘‘ ۔
اس نے با رعب لہجے میں کہا ۔
’’مگر سر ۔۔۔۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
’’اے ۔۔۔۔۔۔ زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش مت کرو ،کال ریکارڈ سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ تمہارے چوروں کے ایک خطرناک گروہ کے ساتھ روابط ہیں جو ڈکیٹیوں کے علاوہ کئی قتلوں میں بھی ملوث ہے‘‘ ۔
’’یہ جھوٹ سے سر ،آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ‘‘۔
انسپکٹر کی بات سن ماجد کے پسینے چھوٹنے لگے اور اس نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا ۔
’’ ہر مجرم یہی کہتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں ۔۔۔۔۔چلو۔۔۔۔۔۔‘‘
انسپکٹر نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے کہا ۔
’’ ہم پہ رحم کیجئے صاحب ۔۔۔۔۔۔ میرا بیٹا ایسا نہیں ہے ،کل ہی اس کی شادی ہوئی ہے‘‘ ۔
ممتا کی ماری ماجد کی ماں پہلے لجاجت سے ہاتھ باندھ کر اس کی منتیں کرنے لگی پھر سر کی چادراس کے قدموں میں ڈال کر گڑ گڑانے لگی ۔
لیکن انسپکٹر پر اس کی بے بسی کا کچھ اثر نہ ہوا اوروہ ماجد کو گھسیٹتے ہوئے لینے لگا ۔اس کی ماں ،نئی نویلی دُلہن اور بہنوں نے رونا شروع کردیا ۔اس دوران آس پڑوس کی کچھ عورتیں بھی جمع ہوگیئں جنہونے شور غل بلند کردیا لیکن انسپکٹر کے سنگ و آہن دل میں ذرا سا بھی رحم نہیں پھوٹا،اُس نے کسی کی ایک نہیں سنی اور ماجد کو گھسیٹے ہوئے گھر سے باہر سڑک تک لے گیا جہاں ان کی گاڑی تھی ۔
’’کیا بات ہے انسپکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ اس کو کہاں لے جا رہے ہو‘‘ ۔
یہ حاجی اقبال عرف اقبال ٹوپی والا، جو ایک سرمایہ دار اور علاقے کا کھڑ پینچ تھا ، کی آواز تھی ۔
’’اقبال صاحب ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک کیس کے سلسلے میں مطلوب ہے اور کچھ پوچھ تاچھ کرنی ہے‘‘ ۔
’’پوچھ تاچھ تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے ،یہ بے چارہ تو کل ہی دولہا بنا ہے‘‘ ۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن میری بھی کچھ مجبوریاں ہیں ‘‘۔
’’ کیسی مجبوری صاحب ۔۔۔۔۔۔ مرغی کو اپنی جگہ رکھ کر اس کے نیچے سے سارے انڈے نکالنے میں آپ بہت ماہر ہو ۔ میں اسے ہر گز لے جانے نہیں دونگا‘‘۔
اقبال ٹوپی والا نے مسکراتے ہوئے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔
’’ٹھیک ہے ،آپ کہتے ہیں تو چھوڑ دیتا ہوں، لیکن چند دن بعد اس کو تھا نے لے کر آجانا ‘‘۔
خدا ا خدا کرکے انسپکٹر کا دل پگھلا اور اس نے متبسم ہونٹوں سے کہتے ہوئے ماجد کو چھوڑ دیا تو اس کی ماں نے روتے روتے اقبال ٹوپی والاکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ۔
’’اگر آپ وقت پر نہیں پہنچتے تو ہم بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جا تے ۔آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی‘‘ ۔
’’نہیں ماں جی ۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرا فرض تھا‘‘۔
کہتے ہوئے اقبال اسے ایک طرف لے کر راز دارانہ انداز میں کچھ کہنے لگا جس کے بعد اندر جا کر اس نے کچھ رقم لاکر اقبال کو تھما دی، کیوں کہ وہ کسی بھی صورت میں ماجد کو تھانے بھیجنے کے لئے تیا ر نہیں تھی ۔اسی لمحے ان کا پڑوسی خواجہ گل محمد بھی آگیا اور انسپکٹر کے خلاف اونچی آواز میں واہی تباہی بولنے کے بعداس کی ڈھارس بندھانے لگا ۔
’’ زیبا ۔۔۔۔۔۔اگر ماجد نے چوری ہی کی ہے تو میں پھر بھی انسپکٹر کو آج اسے تھانے لے جانے نہیں دیتا‘‘ ۔
اس مفلس گھرانے پر بہت دنوں بعد خو شیوں نے دستک دی تھی۔ کافی پاپڑ بیلنے کے بعد دو سال قبل ماجد کو سرکاری نوکری ملی تھی اور نکاح کے بعد اس کی شریک حیات ،جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی تھی ،کو بھی مقامی سکول میں رہبر تعلیم کے زمرے میں نوکری ملنا طئے تھی ۔ ماجد اور اس کے گھر والے اس واقعہ کی وجہ سے کئی دن سخت اذیت میں مبتلا رہے ۔ماجد کی قسمت اچھی تھی کہ اس کی بیوی سمجھدار نکلی ورنہ اس کی زندگی میں بڑا طوفان آسکتا تھا کیوں کہ نا معلوم دشمنوں نے وقت وقت پر اس شادی میں اڑ چنیں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہ ہو سکے تھے ۔
’’صاحب آپ کی ٹرین کتنے بجے آتی ہے ؟‘‘
پریشان سوچوں میں غلطاں و پیچاں ماجد چپراسی کی آواز سن کر چونک گیا ۔اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو دفتر کا وقت ختم ہو چکا تھا اور دفتر کے دوسرے ملازم بھی جا چکے تھے ۔وہ عجلت میں اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے ریلوے سٹیشن پہنچ گیا اور دائیں بائیں نظریں دوڑاتے ہوئے یہ دیکھنے لگا کہ کئی انسپکٹرشہباز تو نہیں ہے ،جس سے وہ سخت خوفزدہ تھا ۔۔۔۔۔۔
’’ ہیلو مسٹر ۔۔۔۔۔۔ صاحب آپ کو بلا رہے ہیں‘‘ ۔
دفعتاً اس کے شانے پر کسی کا ہاتھ پڑا اور سماعتوں سے آواز ٹکرائی ۔اس نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے ایک پولیس کا جوان تھا جسے دیکھتے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے اور چہرے کے جغرافیہ میں ہلچل مچ گئی ۔
’’کون صاحب ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا ۔
’’وہـــــ۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
پولیس والے نے انسپکٹر شہباز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،جو کچھ دوری پر ایک درخت کی چھائوں میں کرسی پر بیٹھا تھا اور ماجدبادل ناخواستہ ہی خوف کی کیفیت میں من من بھاری قدموں سے اس کی طرف چلنے لگا ۔
’’سلام صاحب ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے مریل سی آواز میں کہا ۔سلام کا جواب دیتے ہوئے انسپکٹر نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاکر گرم جوشی سے اس کااستقبال کیا اور خیر عافیت دریافت کرنے کے بعد گویا ہوا ۔
’’ماجد ۔۔۔۔۔۔ میں آپ کے علاقے میں دو سال تک تعینات رہا ہوںاور اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ ایک شریف اور بہترین کردار کے مالک انسان ہو۔ اس دن کے لئے مجھے معاف کرنا اور ماں جی سے بھی میرے طرف سے معافی مانگنا ‘‘۔
’’ سر ۔۔۔۔۔۔ پھر اس دن آپ مجھے گرفتار کرنے کیوں آئے تھے ‘‘۔
’’بیٹا ۔۔۔۔۔۔ وہ اس بد بخت اقبال ٹوپی والاکا بچھایا ہوا جال تھا‘‘ ۔
’’ اقبال ٹوپی والا؟۔۔۔۔۔۔ مگرسر میں نے اس کا کیا بگا ڑا تھا ؟‘‘
ماجد کے تن بدن میں سوئیاں سی چُبھنے لگیں اور اس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
’’ بات چھوٹی سی تھی کہ آپ نے اسے اپنی شادی میں مدعو نہیں کیا تھا، لیکن یہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ تمہیں بدنام اور بے عزت کرنے کے لئے اسے خواجہ گل محمد نے سپاری دی تھی تاکہ اس شادی کے ٹوٹ جانے کے بعد وہ نوکری اس کے میٹرک پاس لڑکے کو ملے جو میرٹ کے حساب سے تمہاری بیوی کو ملنی طے تھی ‘‘ ۔
انسپکٹر نے سگریٹ سلگاتے ہو ئے کہا ۔
���
اجس بانڈی پورہ(193502)کشمیر
ای میل؛[email protected]