سونیا گاندھی کی سیاسی بصیرت کا امتحان! سیاسیات

سید سرفراز احمد

سیاسی قائدین دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو دانا اور دوسرے نادان ۔دانا قائدین میں سیاسی چاپلوسی دور اندیشی حکمت عملی سیاسی پینترے چالبازی سے بھرپور توانا ہوتے ہیں ،جس کی خوش نما باتیں ایک عام انسان کے دل میں گھر کرلیتی ہیںاور ایسے قائدین وقت اور حالات کی نزاکت کے مطابق اپنے گُر استعمال کرکے عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کے وہ تمام جتن کرتےہیں،جن سے وہ سیاست گرکہلاتے ہیں۔ نادان قائدین سیاست میں اچھا خاصہ تجربہ رکھنے کے باوجود فہم و فراست سے عاری ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں آزمائش کی گھڑی اُن کے لئےایک پہاڑ بن جاتی ہے۔ایسے قائدین نہ تو عوامی مفادات میں کھرے اترتے ہیں نہ دیش کے مفاد میںکوئی کارنامہ انجام دیتے ہیں اور نہ ہی اپنی پارٹی کےلئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔
ان دنوں ملک کی ایک نامور سیاسی پارٹی’’ کانگریس ‘‘عوامی مقبولیت کے حصول کیلئے تذبذب کا شکار ہے۔ اس پارٹی کے تجربہ کار سیاستداں اور کار گذار صدر سونیا گاندھی مختلف آزمائشوں سے گذر رہی ہیں کیونکہ پارٹی کے صدر کیلئے جسطرح کی سیاست ہورہی ہے، وہ اس کے لئے سیاسی بصیرت کا امتحان لے رہی ہے۔ چنانچہ جس انداز سے کانگریس پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے غیر گاندھی خاندان کا قومی صدر منتخب کرنے کا فیصلہ لیا گیا، یہ اپنے آپ میں کانگریس کیلئے ایک نیا موڑ ہے۔ جس دوڑ میں کانگریس کے سینئر و تجربہ کار سیاستداں راجستھان کے اشوک گہلوت سب سے آگے تھے۔ لیکن جسطرح سے انہوں نے اپنے ہی گھر میں باغیانہ تیوردِکھائے،اُس پر انہیں منہ کی کھانا پڑی، جس سے نہ صرف اُن کی مفاد پرستی عیاںہوگئی بلکہ دوہراچہرہ بھی سامنے آگیا۔گویا لالچ اور دوغلے پن نے انہیں اپنے انجام تک پہنچا ہی دیا۔ وہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے کانگریس کے قومی صدر کا رول بھی ادا کرنا چاہتے تھے۔ جس کے نتیجے میں جہاںوہ اپنی سیاست گری کے معیاربرقرار نہ رکھ سکے،وہیںاُن کے دوہرے معیارسے ثابت ہوا کہ ایک تجربہ کار سیاستداں ہوتے ہوئے بھی وہ نادان سیاست کارثابت ہوئے۔ اگرچہ انھوں نے سونیا گاندھی سے بات چیت کرنے کے بعد معافی بھی مانگی لیکن ہوا وہی جو ہونا تھا،یعنی وہ کانگریس کے قومی صدر کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔
ظاہر ہے کہ اب کانگریس کے قومی صدر کا انتخاب انتخابی مرحلہ کے ذریعہ ہوگا۔ کانگریس کے ماضی میںزیادہ تر قومی صدر کا انتخاب اتفاق آراء سے ہوتا آیا ہے۔ لیکن گہلوت کے باغیانہ رویہ کے بعد بھی انتخابی مرحلہ کو ہی ترجیح دی گئی،جوکہ دانشمندی کا اقدام دکھائی دیتا ہے، جس میں اہم امیدوارششی تھرور اور ڈگ وجے سنگھ ہیں۔ جب تک کانگریس کا یہ انتخابی مرحلہ مکمل ہوجاتا ہےاور اسکے بعد پارٹی کی توسیع و استحکام کا مرحلہ آئے گا اور پھرجب 2024 کے لوک سبھا انتخابات ہوں گے،تب تک یہ سارے معاملے نہ صرف سونیا گاندھی بلکہ اُس کے بیٹے راہل گاندھی کو شدید آزمائشوںسے گزرنا پڑے گا۔ وہ اس لئے کہ کانگریس کا صدر کوئی بھی ہو،لیکن کانگریس، گاندھی خاندان کے بغیر مستحکم نہیں بن سکتی، جنکا کردار جسم اور روح کی مانند رہا ہے ۔
جس طرح سے راہل گاندھی نے ملکی سطح پر بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کیا ہے، وہ ملک کے موجودہ منظر نامہ کی نوعیت سے کارگر دکھائی دے رہا ہے۔کئی کانگریس مخالف تنظیمیں راہل گاندھی کی اِس یاترا سے تذبذب میں نظر آتی ہیں۔جس سےاخذ کیا جاسکتا ہےکہ راہل کی یاترا مثبت نتائج دے رہی ہے۔جبکہ ابھی اس یاترا کے120 دن باقی ہیں اور دس ریاستوں کا احاطہ کرنا باقی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیچ بھنور میں ڈگمگاتی کانگریس آہستہ آہستہ اپنا دَم خَم سنبھال رہی ہے ۔
لیکن اہم سوال یہ ہےکہ کیا کانگریس سونیا گاندھی ،راہل گاندھی ،پرینکا گاندھی کی محنت و مشقت سے اپنی ڈوبتی ناؤ بچا پائے گی ؟کیا وہ آئندہ 2024 میں ہونے والے انتخابات میں پہلے سےبہتر مظاہرہ کر پائے گی؟کیا وہ بھاجپا کو ٹکر دینے میں کامیاب ہوگی؟ان سوالوں کا بخوبی جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔ہاں !قبل از وقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس پارٹی کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئےپوری یکسوئی کے ساتھ میدان عمل میں کام کرنا ہوگا ،کانگریس قائدین کو منصب اور عہدہ کی خواہش سے باہر نکلنا ہوگا، کانگریس کواپنے اندرونی اختلافات و مسائل سے اوپر اُٹھ کر ملک کے مفادات کو ترجیح دینی ہوگی ۔محض گاندھی خاندان کی کاوشوں سے پار ٹی مضبوط و مستحکم نہیں بن سکتی بلکہ ہر گانگریسی کو اس کے لئےجی توڑ کر محنت کرنی ہوگی ،ورنہ اگر پھرکوئی قائد وقفہ وقفہ کے بعد باغیانہ تیور دکھاتا رہے ، تو راہل کی یاترا بھی بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ کیونکہ عوام کی نظر اور توجہ پوری طرح سے کانگریس پارٹی پر مرکوز ہے۔ اب کانگریس کے قائدین کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ عوام کو اپنے اختلافات کے ذریعہ بار بار مایوس نہ کریں اور نہ ہی عوام کو پارٹی سے دور ہونے دیں۔ لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخابات تک کانگریس کے سفرکیلئے جو کٹھن اور دشوار راستہ ہے ،اُس میں بہت ساری پُر خار راہیں ہیں جو آسانی کے ساتھ پار نہیں ہوسکتیں ،اس لئے اس سفرکےاختتام تک سونیا گاندھی کیلئے سیاسی بصیرت کا امتحان جاری رہے گا ۔
<[email protected]>