سوتیلی ماں :نام زہریلا مگر کردار شفقت بھرا صبر ، محبت اور افہام و تفہیم ہو تو زندگی جنت بن جائے

سیدہ قیصرہ اندرابی،پلوامہ

ایک عورت اپنی زندگی میں بہت سارے کردار ادا کرتی ہے ، ماں، بیوی ،بہن اور ایک کردارسوتیلی ماں کا بھی ہے ۔جہاںیہ سب کردار صبر ، محبت اور افہام و تفہیم کامطالبہ کر رہے ہیں وہیں ایک سوتیلی ماں کو ان سب میں سے ایک خاص مقدار کی ضرورت ہے۔ ایک ماں کے طور پرایک عورت اپنے بچوں کی پرورش اور انہیں محبت ، دیکھ بھال اور مدد فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ وہ بنیادی نگہداشت کرنے والی ہے اور اپنے بچوں کو وہ رہنمائی فراہم کرتی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ زچگی ایک مشکل سفر ہے لیکن ایک ماں اپنے بچوں کے ساتھ جو محبت اور بندھن بانٹتی ہے وہ اس کے قابل بناتی ہے۔ اسی طرح ایک سوتیلی ماں کے لئے بھی یہی کردار نبھانا پڑتاہے حالانکہ اس کیلئے بہت ہی کٹھن ہوتا ہے یہ سب کیوں کہ جب کوئی طلاق یافتہ عورت کسی دوسرے کے گھر نکاح کر کے جاتی ہے، یہ اسکے لئے ایک سمجھوتہ ہوتا ہے اپنی آنے والی زندگی کے ساتھ کیوں کہ اس پر گزر چکی ہوتی ہے، وہ سہمی سہمی سی اور ڈری سی ہوتی ہے ۔ دوسرا یا تیسرا نکاح پھر اسکی مجبوری ہوتی ہے یا تو اسے حالا ت مجبور کر دیتے ہیں۔ اس سے پھر سے نکاح کرنے کے لئے یا پھر اپنے بچوں کی پرورش وہ خودکو ہی سونپ دیتی ہے۔ ایک عورت کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتی ۔اگر اسے بنیادی سہو لیا ت میسر ہوں اور سسرال میں سب سے پہلے اپنے شوہر کی توجہ،تحفظ ،حوصلہ افزائی اور عزت ملے تو وہ اپنی جان بھی نثار کر سکتی ہے۔ عورت کی چار بنیادی ضرورتیں ہیں۔ توجہ ، تحفظ ،عزت اور حوصلہ افزائی۔ اگر ایک عورت کو یہ سب حاصل ہو گا تو وہ اپنے شوہر کے گھر کو جنت بنا دیتی ہے ،لہٰذا ایک مرد کو شادی سے پہلے یہ سو بار سو چ لینا چاہئے کہ آیا وہ نکاح کے لایق ہے یا نہیں ،اگر وہ کسی سے نکاح کرے توکیا وہ اس سے یہ سب دے پائے گایا نہیں؟۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ مرد حضرات جب کسی کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لاتے ہیں تووہ بیوی کو اپنی جوتی سمجھتے ہیں اور اپنے گھر والوں کی نوکرانی تصور کرتے ہیں، وہ ماں اور بہن کی باتوں میں آتے ہیں اور انکی الٹی سیدھی بات کو بیوی تک پہنچا تے ہیں اور بیوی کی بات اپنے گھر والوں سے کہہ دیتے ہیں جب کہ یہ سراسر غلط ہے۔ اس سے اس نازک رشتے پر غلط اثر پڑتاہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک پل میں سب کچھ بکھر جاتا ہے۔نہ ایک شوہر کواپنی ماں یا بہن کے بہکاوے میں آناچاہیے اور نہ ہی ایسے حالا ت ہی پیدا کر دینے چاہئیں۔
مردحضرات کے لئے میرا یہی پیغام ہے کہ آپ اپنی بیوی کوپیار دیں، عزت و وقار دیں، تحفظ و توجہ دیں توآپکا گھر کبھی بھی بکھر نہیں سکتا ہے۔آپ کا گھر جنت بن جائے گا۔ جتنا آپ اپنی بیوی کو عزت کا مقام اپنے گھر والوں کے سامنے دینگے، اتنا ہی اس کی حوصلہ افزائی ہو گی اور اس سے بھی بڑ ھ کر وہ آپکو اور آپکے گھر کو اپنے پیار کے رنگوں سے رنگ دے گی اور یوں آپ کا گھر سنور جائے گا۔ کچھ حضرات اپنی بیوی کو شکل کم ہونے کے طعنے دیتے ہیں یا کسی بھی قسم کی تنقیدکرتے رہتے ہیں جو کہ سب سے بڑ ا گناہ ہے ۔اگر ہم اسلام کے زاوئے سے دیکھیں تو یہ سب سے بڑ ا گناہ ہے ،ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے مرد ایسے ہیں جو بیوی کو بچہ نہ ہونے پر یا بچہ گرنے پر چھوڈ دیتے ہیں یا اکثر دوسری شادی کی دھمکی دیتے ہیں یا کسی اور سے غلط رشتہ رکھتے ہیں۔ ایسے مردبالکل جانور صفت ہوتے ہیں اور بڑے بے درد اور مردہ ضمیرہوتے ہیں۔ ہاں آج بھی ایسے ہی ناسور، ایسے ہی بد بخت مردہمارے سماج میں موجود ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپکو اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں اور میرے پیارے محمدؐکے امتی سمجھتے ہیں۔میرے نبی پاکؐنے عورتوں کو تمام حقوق دئے ہیں۔ آپ ؐکے آنے سے بیٹی کو زند ہ گاڑ نے سے نجات ملی تھی ۔الحمد اللہ ہم بیٹیاں بھی آپؐ کی امت سے ہیںاور فخر کرتے ہیںکہ ایسے رحمتہ العالمین نبی ؐپر جو امت کی بیٹیوں کیلئے رحمت بن کرآئے ورنہ آج بھی ایسے مرد پتہ نہیں کیا کیا نہ کرتے۔
ایک بیوی کے طور پر ایک عورت اپنے ساتھی کے ساتھ بحیثیت ایک سپورٹ سسٹم ہے اور اپنے شوہر کیلئے ایک سکون ہے ۔میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور وہ مل کر ایک خوش کن گھر بنانے کی طرف کام کرتے ہیں۔ایک بیوی اپنے خاندان کی دیکھ بھال اور اس بات کو یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ ہر ایک کی ضروریات پوری ہوں۔
سوتیلی ماں بننا ایک مشکل کردار ہے ، خاص طور پر جب اس میں شامل بچے حیاتیاتی طور پر اس سے متعلق نہ ہوں۔ایک سوتیلی ماں کو دو خاندانوں کو ملانے اور اپنے سوتیلے بچوں کے ساتھ نئے تعلقات بنانے کی پیچیدگیوں سے گزرناپڑتا ہے۔اس کے لیے ایک کامیاب سوتیلی ماں بننے کے لیے بہت صبر ، سمجھ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے شوہر کے بچوں کو دل سے اپنالیں توکوئی مشکل نہیں ہوتی ہے ۔ایک سوتیلی ماں ان کیلئے ایک سگی ماں سے بڑھ کر پیار دے سکتی ہے۔ اس میں سب سے پہلے یہ بات طے ہے کہ یہ سب میاں بیوی کی آپسی سوجھ بوجھ اور پیار و محبت پر انحصار کرتا ہے اورسب سے اہم بات یہاں پر یہ آتی ہے کہ دونو ں کو اپنا ماضی خود سے مٹا دینا چاہیے ،اپنے ماضی کو اپنے حال پر کبھی بھی حاوی نہیں دینا چاہیے اور ایک نئے سرے سے زندگی کی گاڑ ی کو پیار سے تھام کر چلاناچاہیے۔ دونوں میں اگر باہمی سوجھ بوجھ ہو تو ان کی زندگی کامیابی کی طرف گامزن ہو گی اور بچوں کی تمام خوشیاں واپس لوٹ آ سکتی ہیں۔ اگر بچے بن ماں کے ہوتو سوتیلی ماں بھی ایک عورت ہی ہوتی ہے جس کے سینے کے اند ایک ماں کا ہی دل دھڑ کتا ہے، اس کے اندر بھی ایک ماں کے احساسات ہوتے ہیں لیکن یہ زمانہ اس سے کبھی بھی ماں کا درجہ نہیں دے گا کیوں کہ اس پر زمانے نے سو تیلی کی لیبل جو لگا رکھی ہے۔ سو تیلی ماں کوئی ڈائن نہیں ایک انسان ہی ہوتی ہے۔ صرف آپکا برتائوہی اسے بدل سکتا ہے۔جب آپ کی اپنی بیوی یعنی آپ کے بچوں کی سو تیلی ماں آپکے نکاح میں آتی ہے تووہ بھی عزت ،حوصلہ افزائی، تحفظ اور پیار و محبت کی طلب گا ر ہوتی ہے اور وہ غمزدہ اور خوف زد ہ ہوتی ہے، اپنے تلخ ماضی سے اس کے دل و دماغ سے آپکو وہ سب دور کرنا چاہیے۔ا سے بالکل اپنا ساتھی سمجھ لینا چاہیے اور اپنے گھر والوں کے سامنے سب سے بڑھ کر عزت کا مقام دینا چاہیے۔ اگر آپ دو قدم پیار سے آگے بڑینگے تو ظاہر سی بات ہے کہ ایک عورت چار قدم بڑھا ئے گی۔ نہ صرف آپ کیلئے بلکہ آپکے بچوں کیلئے بھی اسکے دل میں محبت بڑھتی جائے گی۔یہ بات سب سے لازمی ہے کہ سو تیلی ماںکو چاہیے کہ بچوں کو بی میں نہ ہی لائے تو بہتر ہوگا کیونکہ بچے اللہ کا روپ ہوتے ہیں ۔اگر ہم ماں یا باپ کے بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں گے تو یہ سب کل ہماری آخرت میں بھی کام آئے گاانشا اللہ کیونکہ یہ دنیا بہت چھوٹی ہے اور ہم سب کو اس سے چھوڑ کر جانا ہے تو اگر ہم کسی کا دل جیتیں تو وہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔
آخر میں ماں ، بیوی اور سوتیلی ماں کے طور پر عورت کا کردار کثیر جہتی اور چیلنجنگ ہے۔اس کیلئے بہت صبر ، محبت اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہے لیکن اس کے بچوں اور کنبہ کو بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کا صلہ اس کے قابل بناتا ہے۔ہر عورت کو ان کرداروں کو جگانے اور آس پاس کے لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالنے میں اپنی طاقت اور لچک کے لیے منایا جانا چاہئے۔
مضمون نگارمحفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کی اعزازی رکن ہیں ۔
رابطہ[email protected]