! سمارٹ کہنے سے شہر چالاک نہیں بنتا حق گوئی

عبدالقیوم شاہ
آکسفورڈ ڈکشنری میں لفظ ’سمارٹ‘ کے دو درجن سے زیادہ معانی درج ہیں۔ کشمیر میں عوامی سطح پر یہ لفظ نفیس، باوجاہت اور خوبصورت شخصیت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے حلقے ’سمارٹ‘ کسی بیدارمغز، نہایت چالاک، خودغرض یا شاطر انسان کے لئے بھی بولتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے انقلاب نے دوسرے لفظوں کی طرح ’سمارٹ‘ کے مطالب اور مفاہیم بھی بدل دئے۔ اب ایک گھڑی ہے ،جو وقت بتانے کے ساتھ ساتھ آپ کے دل کی دھڑکنیں بھی گِن لے گی اور یہ بھی بتائے گی کہ آپ نے دن میں کتنی کیلیریز جلادی ہیں۔ ایسی گھڑی کو ’سمارٹ واچ‘ کہتے ہیں۔ کچن میں ٹیکنالوجی کی مدد سے آسانیاں پیدا کرنے والے آلات نصب ہوں تو وہ ’سمارٹ کچن‘ کہلاتا ہے۔ اسی طرح سمارٹ کار، سمارٹ ٹی وی، سمارٹ فون وغیرہ۔
کوئی شخص ایک روایتی گھڑی کی چین بدل کر اس پر سونے کی چین لگوا دے اور گھڑی پر سجاوٹ کے جُھومر چِپکا دے اور یہ دعویٰ کرے کہ اُس نے ’سمارٹ واچ‘ پہنی ہے تو آپ ایسے شخص کے بارے میں کہا کہیں گے؟ یا تو وہ حواس کھو بیٹھا ہے یا پھر وہ لوگوں کو بے وقوف سمجھ رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی سرینگر شہر کے ماتھے پر ’سمارٹ سٹی‘ کا پوسٹر چپکا کر کیا جارہا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے 2015 میں ملک کے 100 شہروں کی نشاندہی کرکے قومی سطح پر سمارٹ سٹی مشن کا اعلان کیا تھا۔ پہلے تو سرینگر یا جموں اس فہرست میں نہیں تھے، کیونکہ کسی شہر کو سمارٹ سٹی بنانا ہو تو بعض بنیادی خصوصیات کا ہونا لازمی ہوتا ہے جو ہمارے یہاں نہیں تھیں۔ بہر حال اصولوں کو نرم کرکے سرینگر اور جموں کو بھی2017 کے دوران اس فہرست میں شامل کیا گیا ۔ جموں کے لئے 3600 کروڑ روپے جبکہ سرینگر کے لئے 3800 کروڑ روپے مالیت کے دو سمارٹ سٹی منصوبے دردست لئے گئے۔ سرینگر اور جموں کو باقاعدہ سمارٹ سٹی بنانے کا ہدف اپریل 2022 مقرر کیا گیا تھا۔ یہ اگست ہے اور ابھی ہم نے صرف ورلڈ بینک کی مالی معاونت سے باباڈیمب اور ائیرپورٹ روڈ پر کنکریٹ سڑک دیکھی ہے۔ تاخیر کی وجہ سے کاسٹ ایسکلیشن ہوسکتی ہے اور سرینگر کا پروجیکٹ 5000 کروڑ تک جاسکتا ہے۔

کسی شہر کو سمارٹ بنانے کا مطلب کیا ہے؟ مرکزی حکومت نے سمارٹ سٹی مشن کے تحت اس سوال کا جواب یہ دیا ہے : ’’شہر میں جدید ترین اور ٹیکنالوجی سے لیس عوامی سہولات میسر ہوں اور شہری آبادی کو زندگی اور روزگار کے بہترین وسائل بہم پہنچیں۔‘‘ لیکن پچھلے پانچ سال کے دوران سمارٹ سٹی کے نام پر فلائی اوور کی دیواروں پر تصویریں پینٹ کی گئیں اور جی پی او کے باہر سڑک کا اہم حصہ بند کرکے اس پر رنگین لکیریں کھینچی گئیں اور چند پُرانے ٹائر بیچ میں رکھ کر ایک طرح کی ’’پنکچر دکان‘‘ سجائی گئی۔ وہ سب تو بارشوں اور ٹریفک کی ضرورتوں سے ختم ہوگیا تاہم دیواروں پر جھیل ڈل کے شکاروں اور گاوٴں کے تانگوں کی تصویریں ابھی بھی موجود ہیں۔

ڈلگیٹ سے بٹہ مالو تک کسی زمانے میں سات بیت الخلا تھے۔ سمارٹ سٹی کا بخار ایسا چڑھا کہ اب صرف دو رہ گئے ہیں۔ پہلے اگر دس روز تک لگاتار بارش ہوتی تو سڑکوں پر پانی اُمڈ آتا تھا، اب حال یہ ہے کہ ذرا سی بوندا باندی سے ہری سنگھ ہائی سٹریٹ، مائسمہ، لالچوک، سرائے بالا وغیرہ ڈوب جاتے ہیں۔ پہلے باقاعدہ ہر رُوٹ پر بسیں دستیاب تھیں، اب صرف تویرا یا سُومو ہیں جو مغرب کے بعد غائب ہوجاتی ہیں۔ پہلے ٹریفک کا نظام بہتر تھا، اب ہر سو فُٹ کے فاصلے پر ایک روکاوٹ ہے۔ پہلے سڑکوں پر زیبرا نشان ہوتا تھا کہ راہگیر سڑک پار سکیں، اب جہاں مرضی راہگیر سڑک پار کرتے ہیں۔ پہلے فٹ پاتھ تھے ،اب وہ چھاپڑی فروشوں کے قبضے میں ہیں یا اُن پر دکانداروں کے پنڈال سجے ہیں۔ پہلے اے ٹی ایم کی باقاعدہ خدمت میسر تھی۔ اب ہر اے ٹی ایم پر ایک پرچی ہوتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’رسید کے لئے نہیں دبائیں‘‘۔ پہلے آوارہ کتوں کے لئے باقاعدہ انسدادی پالیسی تھی، اب کتوں نے شہر میں ہڑبونگ مچا دی ہے۔ پہلے گائے یا گھوڑے شہر میں آوارہ گھومتے تو میونسپل حکام انہیں دھر لیتے اور کیٹل پانڈ میں قید کرتے اور اُن کے مالکوں سے جُرمانہ وصولتے، اب دن دہاڑے ائیرپورٹ روڑ پر مویشی آوارہ ہوتے ہیں اور کبھی کبھی سڑک حادثوں کا بھی باعث بنتے ہیں۔

سمارٹ سٹی کا مطلب ہوتا ہے کہ لوگوں کو خستہ سڑکوں، بند نالیوں اور بنیادی سہولت کی کمی سے نجات ملے۔ کنگن جاتے ہوئے وائیل کے مقام پر فوج کی طرف سے 30 سال قبل بنایا گیا لوہے کا پُل ہے۔ اب ایک متبادل پل پر کام ہورہا ہے۔ ڈی سی آفس کے باہر فوجی پُل پرسوں تک تھا۔ 50 فٹ کا پل بنانے میں تین دہائیاں صرف ہوئیں۔ پرانے سرینگر کو ڈاوٴن ٹاون یا شہرِ خاص کہتے ہیں۔ سرینگر کی کُل 16 لاکھ آبادی کا 60 فی صد یہاں رہتا ہے۔ فرض کریں مہاراج گنج میں کسی خاتون کو بیت الخلا کی حاجت ہو تو وہ اس کے بغیر کیا کرسکتی ہے کہ کسی گھر میں داخل ہوکر رفعِ حاجت کی درخواست کرے۔

سرینگر دُنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں کا تاریخی ریکارڈ 5000 سال پرانا ہے۔ سمارٹ سٹی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ دیواروں پر لال پیلے رنگوں سے لیپا پوتی کی جائے۔ سمارٹ سٹی کا مطلب ہے کہ شہر کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت کو قائم رکھا جائے اور ڈیولپمنٹ کے نام پر شہر کا حُلیہ نہ بگاڑا جائے۔ سرینگر میں 750 ہیریج سائٹس ہیں، اُن کی تجدید اور تحفظ بھی سمارٹ سٹی ایجنڈے میں ہونا چاہیے۔سمارٹ کا مطلب صرف خوبصورت نہیں بلکہ چالاک بھی ہے۔ سرینگر زلزلوں کے حوالے سے حساس ہے اور اسی لئے سیسمِک زون V میں شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں ہر طرف پانچ پانچ اور سات سات منزلہ شاپنگ مال اور عمارات بن رہی ہیں۔ سیمنٹ اور لوہے کے اس جنگل کا ذمہ دار کون ہے۔ آغا سید صفدر جلالی نے اپنا مکان 1863 میں بنایا تھا جو اب بھی صحیح و سالِم ہے اور ’جلالی ہاوس‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اب یہاں فلموں کی شوٹنگ بھی ہوتی ہے۔ جامع مسجد 600 سال سے ایستادہ ہے۔ دراصل پرانا طرز تعمیر کشمیر کی ماحولیاتی اور جغرافیائی ضرورتوں کے تابع تھا۔ اینٹ، گارا اور لکڑی سائنسی اصولوں کے مطابق کشمیر کے موافق ہے۔

سمارٹ سٹی کے حوالے سے حکومت کو یہ وضاحت کرنا ہوگی کہ اس کا معیار کیا ہے۔ کیا غیرسمارٹ سٹی میں واش رُوم نہیں ہوتا، فٹ پاتھ نہیں ہوتا، دریا کے کناروں پر پھولوں کی کیاریاں نہیں ہوتیں، بسیں نہیں چلتیں۔ یہ سب ہر شہر میں ہوتا ہے۔ اگر دعویٰ سرینگر کو سمارٹ سٹی بنانے کا ہے تو پہلے اس شہر کو شہر کہلانے کے قابل بنائیں۔ بچہ دو لفظ بھی نہیں بول سکتا اور ہم اسے چالاکی کا درس دینے لگیں تو کوئی بھی ذی ہوش شخص ہمیں بتائے گا کہ بھائی پہلے اسے بات تو کرنے دو۔
(رابطہ۔ 7780882411, 9469679449 )
[email protected]